برازیل نے کہا ہے کہ منگل کو اس کے ہاں ایک بار پھر ایک دن میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ بنا ہے۔ وزارت صحت کے مطابق، 24 گھنٹوں کے دوران وائرس سے 1262 اموات ہوئی ہیں جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 31 ہزار سے زیادہ ہوگئی۔
ملک میں کرونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں اب تک 18 لاکھ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
برازیل میں وائرس پھیلنے اور اموات بڑھنے کے باوجود اس کے صدر جائر بولسونارو وبا کی سنگینی کو یہ کہہ کر مسترد کرتے آئے ہیں کہ یہ ایک معمولی سے فلو سے زیادہ کچھ نہیں۔ انھوں نے دارالحکومت برازیلیا میں صدارتی محل کے باہر جمع اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ہر موت کا غم ہے۔ لیکن، ہر شخص کو آخرکار ایک دن مرنا ہے۔
امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق دنیا میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد 64 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ 3 لاکھ 80 ہزار سے زیادہ اموات ہوچکی ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ چھ ہزار ہلاکتیں امریکہ میں ہوئی ہیں۔
ادھر ٹوکیو کی گورنر یوریکو کوئیکے نے خبردار کیا ہے کہ شہر میں کرونا وائرس دوبارہ زور پکڑنے کا خدشہ ہے۔ ٹوکیو میں منگل کو 34 نئے کیسز کی نشاندہی ہوئی جو ایک ماہ میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ شہر میں چند دن پہلے ہی ہنگامی حالت ختم کی گئی تھی۔ کوئیکے کا کہنا تھا کہ اگر نئے کیسز کی یومیہ تعداد 50 سے زیادہ ہوئی تو وہ ایک بار پھر کاروبار بند کردیں گی۔
دنیا بھر میں صحت عامہ کے ماہرین بار بار متنبہ کررہے ہیں کہ کاروبار کھولنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیا گیا تو نئے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔
جنوبی افریقہ کا کہنا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد ہر دو ہفتوں میں دوگنا ہورہی ہے۔ ملک میں اس وقت 35 ہزار سے زیادہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے حال میں لاطینی امریکہ اور جزائر غرب الہند کو کرونا وائرس کے نئے مراکز قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود بولیویا، میکسیکو اور وینزویلا میں اس ہفتے لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کردی گئی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک رائن نے منگل کو کہا کہ واضح طور پر جنوبی امریکہ کے کئی ملکوں میں صورتحال مستحکم نہیں۔ کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ان کے اسپتالوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
امریکہ میں اب بھی روزانہ ہزاروں نئے کیسز کی تصدیق ہورہی ہے اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ بہت سے شہروں میں نسلی امتیاز کے خلاف ہزاروں افراد احتجاج کررہے ہیں۔ ان مظاہروں میں ماسک پہننے اور سماجی فاصلے کا خیال رکھنے جیسی ہدایات پر عمل نہیں کیا جاتا۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں سفید فام آبادی کے مقابلے میں اقلیتوں میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح زیادہ ہے۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق، سفید فام افراد کے مقابلے میں بنگلادیشی کے مرنے کا امکان دو گنا ہے جبکہ چینی، بھارتی، پاکستانی اور غرب الہند کے سیاہ فاموں کی موت کا خدشہ 10 سے 50 فیصد زیادہ ہے۔
برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے تسلیم کیا کہ سیاہ فام اور دوسری نسلی اکائیاں زیادہ خطرے میں ہیں۔ لیکن اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ رپورٹ میں انھیں بچانے کے لیے سفارشات پیش نہیں کی گئیں۔