بھارت اور برطانیہ نے روس پر یوکرین میں فوری جنگ بندی کے لیے زور دیا ہے جب کہ برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے روس پر بھارت کا انحصار کم کرنے کے لیے دفاعی اور تجارتی شعبے میں دوطرفہ تعلقات بڑھانے کے لیے اقدامات کا اعلان بھی کیا ہے۔
بورس جانسن کے دو روزہ دورۂ بھارت کے اختتام میں دونوں وزرائے اعظم نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ دو طرفہ گفتگو میں یوکرین کی صورتِ حال پر بھی بات ہوئی اور اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یوکرین پر روسی جارحیت کے بعد اگرچہ بھارت نے یوکرین میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے لیکن براہِ راست روس یا روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی مذمت نہیں کی ہے۔
رواں ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کونسل میں روس کی رکنیت معطل کرنے کے لیے جب رائے شماری ہوئی تو بھارت اس سے بھی غیر حاضر رہا تھا۔
جمعرات کو بھارت پہنچنے پر برطانیہ کے وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ وہ بھارت اور روس کے قریبی تعلقات سے آگاہ ہیں اور وہ اس معاملے پر نریندر مودی سے بات کریں گے۔
اس سے قبل امریکہ کے صدر بائیڈن سمیت دیگر مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین جنگ میں روس کے خلاف واضح مؤقف اختیار کرنے پر زور دینے کے باجود وزیرِ اعظم مودی یوکرین میں روس کے اقدامات کی مذمت سے گریز کررہے ہیں۔
دفاعی و تجارتی تعاون
وزیرِ اعظم بننے کے بعد بورس جانس کا یہ پہلا دورۂ بھارت تھا جس میں دوطرفہ دفاعی اور تجارتی تعلقات گفتگو کا محور رہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق برطانوی وزیر اعظم نے بھارت میں دفاعی اور تجارتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے اس سے توقع کی جارہی ہے کہ ان کے نتیجے میں دفاعی شعبے میں بھارت کا روس پر انحصار کم ہوگا۔
دورے کے آخری روز بورس جانسن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ رواں برس اکتوبر میں دیوالی تک آزاد تجارتی معاہدہ متوقع ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کا حجم دوگنا ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ بھارت کو ملک کے اندر جنگی جہاز تیار کرنے کے لیےسازوسامان کی درآمد پر آنے والے اخراجات کم کرنے میں مدد دے گا۔
بھارتی فضائیہ میں اس وقت روس، برطانیہ اور فرانس کے تیار کردہ جنگی طیارے شامل ہیں۔
بورس جانسن نے اعلان کیا کہ برطانیہ دفاعی سازوسامان کی برآمدات کی جلد فراہمی اور اس عمل کو آسان بنانے کے لیے بھارت کو ایک مخصوص لائسنس جاری کرے گا۔ اس وقت ایسے لائسنس صرف یورپی یونین اور امریکہ کو جاری کیے گئے ہیں۔
کیا روس پر بھارت کا انحصار کم ہوگا؟
اپنے دورے کے اختتام پر برطانوی وزیرِ اعظم نے بھارت کو جس دفاعی تعاون کی پیش کش کی ہے بھارت نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باوجود بھارت کا جنگی ساز و سامان کے لیے روس پر انحصار برقرار رہے گا۔
نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی الٹرنیٹیو کے ڈائریکٹر موہن گروسوامی کا کہنا ہے کہ روس کے تیار کردہ آلات اور ہتھیاروں کی کم قیمتیں بھی دفاعی شعبے میں روس پر بھارت کے انحصار کی ایک وجہ ہے۔
رائٹرز کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ روس نے بھارت کے لیے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں لیکن برطانیہ وہ سب کچھ دینے کے لیے تیار نہیں جس کی بھارت کو ضرورت ہے۔ وہ بھارت کو جو آلات اور ہتھیار دینے کے لیے تیار ہے ان کی قیمیتں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔
بورس جانسن نے عندیہ دیا ہے کہ آزاد تجارتی معاہدے کے نتیجے میں بھارت برطانیہ کو زیادہ مقدار میں چاول اور ٹیکسٹائل برآمد کرپائے گا۔
اس وقت بھارت اور برطانیہ کے درمیان تجارت کا حجم 29 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
بل ڈوزر تنازع
وزیرِ اعظم بننے کے بعد بورس جانسن بھارت کا پہلا دورہ ایک ایسے موقع پر کررہے ہیں جب انہیں اپنے ہی ملک میں کرونا ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پارٹی منعقد کرنے پر تحقیقات کا سامنا ہے۔
بھارت پہنچنے پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا ، اور انہوں نے جمعرات کو بھارتی ریاست گجرات میں تعمیرات میں استعمال ہونے والی بھاری مشینری تیار کرنے کی ایک کمپنی جے سی بی کے نئے پلانٹ کا افتتاح بھی کیا۔
انہوں نے کمپنی کے تیار کردہ ایک بلڈوزر پر سوار ہوکر تصویر بھی اتروائی جس کی وجہ سے انہیں تنقید کا سامنا ہے۔
بلڈوزر کے ساتھ معمول کی اس تصویر پر اس لیے تنقید کی جاری ہے کہ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں جاری تجاوزات کے خلاف کارروائی میں جے سی بی کمپنی کی بنائی گئی مشینری استعمال ہو رہی ہے۔ اس کارروائی پر یہ الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔
اگرچہ انتظامیہ اس تاثر کی نفی کرتی ہے لیکن بھارتی سوشل میڈیا پر دائیں بازو کے ہندو قوم پرست بلڈوزر کو مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی علامت کے طور پر بھی پیش کررہے ہیں۔
تجاوزات کے خلاف کارروائی میں جے بی سی کمپنی کے تیار کردہ بلڈوزر استعمال ہورہے ہیں اور ان کارروائیوں کی سامنے آنے والی تصاویر اور فوٹیجز میں بھی انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انڈیا کا کہنا ہے کہ جب دہلی کی میونسپل انتظامیہ جہانگیر پوری میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانیں منہدم کررہی ہے تو برطانوی وزیرِ اعظم کا گجرات میں اسی جے بی سی کمپنی کے پلانٹ کا افتتاح کرنا ناسمجھی ہے اور ایسے واقعات پر خاموشی حقائق سے نظریں پھیرنے کے مترادف ہے۔
ایمنسٹی انڈیا نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کو بھارتی حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے۔
اس کے علاوہ بھارت میں انسانی حقوق کے دیگر کارکنان نے بھی بورس جانسن کی جے سی بی کے پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر بلڈوزر پر سوار ہوکر تصویر بنوانے پر تنقید کی ہے۔
قانون دان اور شہری حقوق کے کارکن پرشانت بھوشن نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم بلڈوزر پر سوار ہوئے اور پھر اڈانی کی دعوت میں شریک ہوئے۔ یہ انتہائی شرمناک ہے کہ ان کے دورے کے دوران کس طرح بلڈوزر اقلیتیوں کو ڈرانے دھمکانے اور قانون کو مسمار کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق وزیرِ اعظم جانسن سے جب افتتاح کے موقع پر سوال کیا گیا کہ کیا وہ مکانات کے انہدام کا معاملہ وزیر اعظم مودی کے سامنے اٹھائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی میں بھی مشکل ایشوز پر بات کرتے رہے ہیں۔ یقینی طور پر ہم اب بھی کریں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ایک ارب 35 کروڑ سے زائد آبادی کا ملک ہے اور یہ جمہوری ملک ہے۔
اخبار کے مطابق جے سی بی کمپنی کے دورے کے بارے میں جب وزیرِ اعظم کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے جے سی بی کے پلانٹ کا دورہ اس لیے کیا کہ اس کے مالک انتھنی بمفورڈ ان کی کنزرویٹیو جماعت کے ڈونر ہیں؟ جس پر ترجمان نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نے پلانٹ کا افتتاح اس لیے کیا ہے کہ یہ برطانیہ کے کاروبار کے لیے اچھا تھا بھارتی حکومت کے ساتھ کام کرنا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
گارڈین کے مطابق جے سی بی کمپنی نے اس معاملے پر مؤقف دینے سے انکار کر دیا ہے۔