شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت کی غرض سے شام جانے کی کوشش کرنے والے تین برطانوی نوجوانوں کو ترکی میں گرفتاری کے بعد برطانیہ جلاوطن کردیا گیا ہے۔
ترک حکام نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ انہوں نے برطانوی حکام کے نشاندہی پر تینوں نوجوانوں کو جمعے کو ترکی کے شہر استنبول سے حراست میں لیا تھا۔
لندن پولیس کے مطابق انہیں جمعے کو 17 سال کے دو نوجوانوں کے شہر سے لاپتا ہونے کا علم ہوا تھا جن کے بارے میں ان کے احباب نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہ شام کا رخ کرسکتے ہیں۔
پولیس کے مطابق تفتیش کے بعد پتا چلا تھا کہ دونوں لڑکوں کے ہمراہ ایک 19 سالہ نوجوان بھی ہے اور وہ اسپین کے راستے ترکی جارہے ہیں۔
ترک پولیس نے برطانوی حکام کی اطلاع پر تینوں نوجوانوں کو استنبول سے حراست میں لے لیا تھا جس کے بعد انہیں ہفتے کی شب برطانیہ روانہ کردیا گیا۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تینوں نوجوانوں کو برطانیہ پہنچنے کے بعد "دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے شبہے میں" حراست میں لے لیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق تینوں نوجوانوں کو لندن کے ایک پولیس تھانے میں رکھا گیا ہے اور ان سے تفتیش کی جارہی ہے۔ پولیس نے نوجوانوں کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ تین کم عمر برطانوی لڑکیاں بھی مبینہ طور پر داعش میں شمولیت کی غرض ترکی پہنچی تھیں جن کا تاحال سراغ نہیں مل سکا ہے۔ حکام کو شبہ ہے کہ تینوں لڑکیاں شام پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔
برطانیہ کے انٹیلی جنس اداروں کے مطابق اب تک لگ بھگ 600 برطانوی مسلمان شدت پسند گروہوں میں شمولیت کی غرض سے شام یا عراق جاچکے ہیں۔
یورپی حکام کا کہنا ہے کہ مسلح کارروائیوں میں شریک ہونے کے لیے یورپ کے دیگر ملکوں سے شام اور عراق کا رخ کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔
مسلح کارروائیوں میں شدت پسندوں کا ساتھ دینے کی غرض سے یورپ کے سیکڑوں مسلمان شہریوں کی مشرقِ وسطیٰ ہجرت نے یورپی حکومتوں کو پریشان کردیا ہے جنہیں خدشہ ہے کہ یہ افراد مشرقِ وسطیٰ سے واپسی پر اپنے ملکوں میں بھی دہشت گرد حملے کرسکتے ہیں۔