رواں برس ایران میں مردوں کا والی بال میچ دیکھنےکی کوشش کرنے پرگرفتار کی جانے والی ایرانی نژاد برطانوی خاتون کوعدالت نے ایک سال کے لیے جیل کی سزا سنائی ہے ۔
ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق دہری شہریت کی حامل 25 سالہ غنچہ قوامی کے وکیل محمود علی زادہ طبطبائی نے اتوار کو بتایا کہ عدالت نے ان کی موکلہ کو حکمراں نظام کے خلاف حکومت مخالف پروپیگینڈا پھیلانے کا مجرم قرار دیا ہےجس پر انھیں ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا گیا ہے ۔
غنچہ کے وکیل طبطبائی نے کہا کہ انھوں نے فیصلے کا متن دیکھا ہے اور وہ ابھی سرکاری فیصلے کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انھیں عدالت میں بتایا گیا ہے کہ ان کی موکلہ کا مقدمہ دوبارہ سے پراسکیوٹرز کو بھیج دیا گیا ہے کیونکہ غنچہ قوامی کو مزید الزامات کا سامنا ہے اسی لیے فیصلہ اب تک ان کے حوالے نہیں کیا گیا ہے تاہم انھوں نےاس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ یہ کون سے نئےالزامات ہیں اوران کی موکلہ پر کیوں لگائے گئے ہیں ۔
غنچہ کے بھائی امان نے اس فیصلے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خاندان فیصلے کے حوالے سے پرامید تھا کہ غنچہ کو رہا کر دیا جائے گا کیونکہ جون میں اپنی گرفتاری کے بعد سے اب تک غنچہ ایک طویل قید کاٹ چکی تھی لیکن یہ فیصلہ ہمارے لیے بہت مایوس کن ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنشنل کے مطابق غنچہ قوامی کو رواں برس20 جون کو تہران کے آزادی اسٹیڈیم کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہاں خواتین میچ دیکھنے پر پابندی کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
جبکہ غنچہ قوامی کے بھائی امان کا کہنا ہے کہ اس روزان کی بہن کچھ دوسری خواتین کے ہمراہ ایران اور اٹلی کے درمیان ہونے والے مردوں کا والی بال میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم کے اندر جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ امان کا کہنا تھا کہ ان کی بہن گذشتہ چند ماہ سے ایران میں قیام پذیر تھی جہاں وہ بے گھربچوں کے لیے امدادی سرگرمیوں کے کاموں میں حصہ لے رہی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ غنچہ کو پولیس نے چار گھنٹے تک پوچھ گچھ کرنے کے بعد رہا کر دیا تھا لیکن اگلے روز جب وہ پولیس اسٹیشن سےاپنا سامان واپس لینے گئی تو غنچہ قوامی کی دہری شہریت دریافت ہونے کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں عورتوں پرکھیلوں کا مقابلہ دیکھنے کے لیے مرد تماشائیوں کے ساتھ اختلاط پر پابندی عائد ہے حقو ق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی کے مطابق ایران میں خواتین پر فٹبال میچ دیکھنے پر 1979 میں پابندی عائد کی گئی تھی جبکہ 2012 میں اس پابندی میں توسیع کی گئی اور اس میں والی بال میچوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
ایرانی حکام کی جانب سے مس قوامی کو 126دنوں تک تہران کی بد نام جیل میں رکھا گیا جبکہ مس قوامی نے اسی جیل میں 41 دن قید تنہائی کے بھی کاٹے ہیں۔
23 ستمبر کو رسمی طور پر ایرانی حکام کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ غنچہ قوامی کو حکومت کے خلاف پروپگینڈا پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف الزامات قومی سلامتی کے ساتھ منسلک ہیں جس کےبعد اکتوبر کے مہینے میں ان کے مقدمے کی سماعت ہوئی ۔
غنچہ کے بھائی امان نے بتایا کہ عدالت میں مقدمے کی سماعت سے ایک روز پہلے تک غنچہ کو وکیل تک رسائی فراہم نہیں کی گئی تھی ۔
لندن یونیورسٹی اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز سے قانون میں گریجویٹ کی ڈگری رکھنے والی غنچہ قوامی نے اپنی طویل نظر بندی کے خلاف پچھلے ماہ 14 دنوں تک بھوک ہڑتال جاری رکھی اور مقدمے کی آخری سماعت سے صرف تیس منٹ پہلے انھوں نے اپنی ماں کے ہاتھوں سے پھل کھانے کے بعد بھوک ہڑتال ختم کی تھی ۔
ادھر برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے اتوار کو فیصلے پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے جس بنیاد پر مقدمہ چلایا گیا ہے انھیں اس پر تشویش ہے۔
پچھلے ماہ سی این این کے ایک انٹرویو میں ایرانی صدر حسن روحانی نے غنچہ قوامی کی نظر بندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران نے دہری شہریت کو تسلیم نہیں کیا ہے "اس سلسلے میں ہمارا مقصد واضح ہے کہ لوگ زندگی کے ہرراستے پر ہرقدم پرقوانین کا احترام کریں۔"
ایمنسٹی یوکے کی ڈائریکٹر کیٹ ایلن نے غنچہ قوامی کی سزا کے فیصلے پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک ا"نتہائی خراب فیصلہ" ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ غنچہ ضمیر کی قیدی ہے ایرانی حکام ان کی سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں غیر مشروط طور پر رہا کریں۔
ایمنسٹی یو کے کے مطابق غنچہ قوامی کے خلاف لگایا گیا الزام بین الاقوامی سطح پر قابل سزا جرم کے مترادف نہیں ہے خواتین کے خلاف امتیاز ختم کرنے کے لیے پر امن سرگرمیوں میں شامل ہونا اتنا بڑا الزام نہیں ہے جس پر انھیں جیل میں بند کر دیا جائے ۔
ادھر سوشل میڈیا پر غنچہ قوامی کی رہای کے لیے ڈالی گی آن لان پٹیشن پر 700,000لوگوں نے اپنے دستخط کے ہیں اور غنچہ کی رہای کا مطالبہ کیا ہے۔