’اسپرنگ ایکسیلیٹر‘ ویسے تو برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے لیکن اب یہ پاکستان میں بھی خواتین کی فلاح و بہبود، ان کی تعلیم اور بہتر صحت کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔
پاکستان میں اس تنظیم کے کنٹری منیجر ضیاء عمران ہیں جنہوں نے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں بتایا کہ تنظیم نے پاکستان میں رواں سال فروری سے اپنے کام کا آغاز کیا ہے جس کا دائرہ کار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اسپرنگ ایکسیلیٹر‘کی توجہ پاکستان میں کم عمر نوجوان لڑکیوں کی فلاح و بہبود، تعلیم، بہترصحت اور ترقی پر مرکوز رہے گی۔ دنیا کے متعدد ممالک کی تقریباً 250 ملین لڑکیاں غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ لڑکیاں غربت کے سبب نہ تو تعلیم ہی حاصل کر سکتی ہیں اور نہ ہی ان کی صحت ہی اچھی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے پاس ذریعہ معاش بھی محفوظ اور دیرپا نہیں۔
’اسپرنگ ۔۔۔‘دنیا کے ایسے ہی کئی ممالک میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ خاص کر افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں۔ تنظیم کے مشرقی اور جنوبی افریقہ میں پانچ سالہ منصوبے کامیابی سے جاری ہیں۔
تنظیم کو ڈپارٹمنٹ فور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ برطانیہ‘،’نائیکی فاؤنڈیشن‘، ’یو ایس ایجنسی فور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ(یوایس اے آئی ڈی) اور آسٹریلین ڈپارٹمنٹ آف فارن افیئرز اینڈ ٹریڈ(ڈی ایف اے ٹی)کا تعاون حاصل ہے۔
ضیاء عمران نے بتایا کہ صحت کے شعبے میں اسپرنگ کی جانب سے’ این انیشی ایٹیوآف کمیونٹی انوویشن پرائیوٹ لمیٹڈ‘ فروری 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔ حر ف عام میں اسے ’صحت کہانی ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
’صحت کہانی ‘ پسماندہ اور دیہی علاقوں کے کم آمدنی والے خاندانوں کو طبی سہولیات فراہم کا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے تحت مریضوں کو خواتین ڈاکٹرز سے مشورے کی آن لائن اور ورچوئل سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
خواتین مریض اپنے علاقے میں واقع ٹیلی میڈیسن ای حب کلینکس کے ذریعے اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ جو خواتین گھروں سے باہر نہیں نکل سکتیں انہیں ڈاکٹر سے رابطے کی سہولت ان کے گھرپر’صحت کہانی‘ کے کمپیوٹر اور کمیونٹی ہیلتھ کئیر ورکرز کے ذریعے دی جاتی ہے۔
صحت کہانی کے سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں 9 کلینکس کام کررہے ہیں۔اب تک 28 ہزار مریضوں کوٹیلی میڈیسن فراہم کی جا چکی ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ سے زائد مریضوں کو بالواسطہ رسائی حاصل ہوئی۔ ان مریضوں میں 20 سے 30 فیصد تعداد 20 سال سے کم عمر نوجوان ماؤں کی تھی۔
تنظیم کی جانب سے 8 سے 13 سال کی عمر کی لڑکیوں کے لئے اعلیٰ معیاری تعلیمی کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ انہیں ٹیوشن دی جارہی ہے۔ خواتین ٹیوٹرز کو بھی ٹریننگ دی جاتی ہے جبکہ انہیں ورک بکس اور ڈیجیٹل ایپلی کیشنز پرمبنی نصاب بھی فراہم کیا جاتا ہے۔