رسائی کے لنکس

برطانیہ میں سیاسی بحران: بورس جانسن کا مستعفی ہونے کا اعلان


برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اپنی ہی کابینہ کے بیشتر وزرا کے استعفے اور پارٹی میں اختلافات کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سےمستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے لیکن وہ نئے لیڈر کے انتخاب تک وزیراعظم رہیں گے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق بورس جانسن نے برطانیہ میں وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر تصدیق کی کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نئے لیڈر کے انتخاب کا عمل اب شروع ہوجانا چاہیے۔

بورس جانسن کا کہنا تھا کہ آج میں نے ایک نئی کابینہ کا تقرر کیا ہے اور جب تک نیا لیڈر نہیں آتا میں کام کرتا رہوں گا۔

بورس جانسن کا کہنا تھا کہ بریگزٹ سے لے کر ملک کو وبا سے نکالنے تک اور یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف کھڑے ہونے والے مغرب کی قیادت کرنے تک، انہیں اپنی حکومت کی کارکردگی پر بے حد فخر ہے۔

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن کی اپنی ہی کابینہ کے بیشتر وزرا کے استعفے اور پارٹی میں اختلافات کے بعد جانسن کے مستعفی ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔

اس سے قبل برطانوی وزیرِ اعظم نے ڈٹ کر سیاسی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

برطانیہ میں کئی روز سے جاری سیاسی بحران کی وجہ حکمراں جماعت کے اندر پیدا ہونے والے اختلافات اور وزیرِ اعظم بورس جانسن پر آئے روز نت نئے اسکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات بتائی جا رہی ہے۔

برطانوی پارلیمان میں کنزرویٹو پارٹی کے کئی اراکین بھی وزیرِ اعظم بورس جانسن کو اس عہدے کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے اُن کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

سیاسی بحران میں شدت اس وقت آئی جب بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی میں اختلافات کے بعد کابینہ کے 50 سے زائد وزرا نے اپنے استعفے پیش کیے۔ وزرا کے استعفوں کے بعد بورس جانسن پر عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق نوے سال کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ برطانوی وزیرِ اعظم پر اتنی بڑی تعداد میں خود اُن کی اپنی جماعت کے وزرا نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

جانسن کے کابینہ کے کئی اہم وزرا نے چند روز کے دوران اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا تھا۔ حتیٰ کے بدھ کو وزیرِ خزانہ بننے والے ناظم الزھاوی نے بھی وزیرِ اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

اپنی ایک ٹویٹ میں ندیم الزھاوی نے وزیرِ اعظم جانسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "حالات اب آپ کے لیے سازگار نہیں بلکہ مزید خراب ہوں گے۔ لہذٰا کنزرویٹو پارٹی بلکہ ملک کے لیے ضروری ہے کہ آپ ٹھیک کام کریں اور مستعفی ہو جائیں۔"

اس سے قبل جون میں بورس جانسن پیر کے روز ایوان نمائندگان میں ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک میں اپنی وزارت عظمیٰ بچانے میں کامیاب رہے تھے۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی کے دوران ایوان میں حزب اختلاف سمیت انہیں اپنی ہی پارٹی کے 148 ممبران کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جانس اپنے خلاف اسکینڈلز پر عام طور پرتوجہ نہیں دیتے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں وہ اپنے اور ساتھیوں کے بارے میں کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران منعقد کی جانے والی پارٹیوں کی خبروں کے باعث سیاسی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG