امریکہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کرونا وائرس کے انفیکشن سے پیدا ہونے والا مدافعتی ردعمل دماغ کی خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور طویل عرصے تک کووڈ نائنٹین مرض کی علامات کا باعث ہو سکتا ہے۔
یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے سائنس دانوں کی منگل کو شائع ہونے والی ایک محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق ان نو افراد کے دماغی پوسٹ مارٹم پر مبنی تھی جو وائرس کا شکار ہونے کے بعد اچانک انتقال کر گئے تھے۔
جرنل برین میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق، دماغ میں کووڈ کے شواہد کا پتا لگانےکے بجائے ٹیم نے دیکھا کہ یہ لوگوں کی اپنی اینٹی باڈیز تھیں جنہوں نے دماغ کی خون کی نالیوں کے خلیوں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں سوزش اور نقصان ہوا۔
یہ تحقیق اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ کچھ لوگوں میں انفیکشن کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ ان اثرات میں سر درد، تھکاوٹ، ذائقہ اور بو کی کمی، اور نیند نہ آنے کے ساتھ ساتھ 'دماغی دھند' بھی شامل ہے -
یہ تحقیق طویل عرصے تک جاری رہنے والے کووڈ مرض کے لیے نئے علاج وضع کرنے میں بھی مدد گار ہو سکتی ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے سائنس دان اویندرا ناتھ، جو مقالے کے سینئر مصنف ہیں، نے ایک بیان میں کہا کہ کووڈ کے ساتھ مریض اکثر اعصابی پیچیدگیوں سے دو چار ہوتے ہیں۔تاہم بنیادی پیتھوفزیولوجیکل یعنی مرض کے حوالے سے کسی شخص کے نظام کے کام کرنے کے عمل کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں گیا ہے۔
ان کے بقول، "ہم نے پہلے پوسٹ مارٹم میں مریضوں کے دماغوں میں خون کی نالیوں کو پہنچنے والے نقصان اور سوزش کو دکھایا تھا، لیکن ہمیں نقصان کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ میرے خیال میں اس مقالے میں ہم نے واقعات کے رونما ہونے میں اہم بصیرت حاصل کی ہے۔"
تحقیق میں ایسے نو افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 24 سے 73 سال تھیں اور جن میں ٹیم کی اس سے قبل کی گئی تحقیق کے مطابق اسکین کے ذریعے دماغ میں خون کی شریانوں کے نقصان ہونے کا پتا چلا تھا۔
تحقیق میں حصہ لینے والے افراد کے دماغوں کا موازنہ 10 کنٹرول شدہ افراد سے کیا گیا۔
سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ کووڈ نائنٹین کے خلاف پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز نے غلطی سے ایسے خلیوں کو نشانہ بنایا جو دماغ میں خون میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ رکاوٹ ایک ڈھانچہ ہے جو نقصان دہ حملہ آوروں کو دماغ سے باہر رکھنے کا کام کرتا ہے جب کہ ضروری مادوں کو گزرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ان خلیوں کو پہنچنے والا نقصان پروٹین کے اخراج، خون بہنے اور جمنے کا سبب بن سکتا ہے، جس سے دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
خون کا بہاؤ میکروفیجز نامی مدافعتی خلیوں کو بھی متحرک کرتا ہے جو نقصان زدہ حصے کو بحال کرنے کے لیے اس حصے پر پہنچتے ہیں اور اس عمل سے سوزش ہوتی ہے۔
اس تحقیق سے اخذ کیے گئے نتائج طویل مدتی اعصابی علامات ظاہرکرنے والے مریضوں میں حیاتیاتی عمل کے بارے میں سراغ فراہم کرتے ہیں۔ ان نتائج سے نئے علاج سے آگاہی حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ ایک ایسی دوا جو دماغ میں خون میں رکاوٹ پر اینٹی باڈیز کے جمع ہونے کو نشانہ بناتی ہو۔
ناتھ کہتےہیں کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ یہی مدافعتی ردعمل طویل عرصے تک کووڈ سے متاثر ہ مریضوں میں برقرار رہے جس کے نتیجے میں اعصابی چوٹ پہنچتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نتائج ایسی دوا کی نشاندہی کرتے ہیں ہے جو اس مدافعتی ردعمل کوکم کرتی ہو۔ لہذا ان نتائج میں مریضوں کے علاج سے متعلق بہت سی مضمرات ہیں۔