برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے کہا ہے کہ وہ دِن نہیں رہے جب امریکہ اور برطانیہ دوسرے ملکوں میں مداخلت کرکے اُنھیں اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔
وزیر اعظم نے یہ بات جمعرات کے روز فلاڈیلفیا میں امریکی ری پبلیکن پارٹی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جس کے بعد اُنھوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔
مے نے کہا کہ یہ برطانوی اور امریکی مفاد میں ہے کہ وہ اپنے اقدار کا دفاع کریں۔ لیکن، وہ ماضی کی جانب نہ پلٹیں، جو، بقول اُن کے، ’’ناکام پالیسیاں تھیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ جب حقیقی خطرہ ہو، تب بھی ہم خاموش رہیں۔ اور جب مداخلت ہمارے مفاد میں ہو، ضرور کرنی ہوگی۔ لازم ہے کہ ہم مضبوط، چوکس اور سخت گیر بنیں‘‘۔
مے نے اقوام متحدہ اور نیٹو جیسے کثیر ملکی اداروں میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ اِس لیے ضروری ہے تاکہ اِنہیں زیادہ موزوں اور بامقصد بنایا جا سکے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کے ارکان کو امریکہ پر انحصار بند کرنا ہوگا۔
بقول اُن کے ’’آزاد ملکوں کو اپنی سکیورٹی اور سلامتی امریکہ کو نہیں سونپنی چاہیئے۔ اور آگے بڑھنے اور اپنا حصہ ڈالنے کی جگہ، اُنھیں اتحادوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیئے، جن ہی کی مدد سے ہم سب طاقتور بنتے ہیں‘‘۔
مے نے کہا کہ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ ’’مضبوط، عظیم اور زیادہ پُراعتماد‘‘بن سکتا ہے، جسے اُنھوں نے باقی دنیا کے لیے بہتر قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ اور امریکہ کے ’کنزرویٹو‘ یکساں اصولوں کے پاسدار ہیں۔
اُن کی فلاڈیلفیا آمد پر، احتجاجی مظاہرین جمع تھے۔ بعدازاں، اُنھوں نے ری پبلیکنز سے کہا کہ ’’نومبر کے انتخابات میں) پنسلوانیا میں ’’خاصی فتح حاصل کی گئی‘‘، جو روایتی طور پر ڈیموکریٹس کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔