جینیاتی تحقیق کے شعبے میں ہونے والی حیرت انگیز پیش رفت مزید ایک قدم اور آگے بڑھی ہے جب یکم فروری کو برطانیہ میں پہلی بار لندن سے تعلق رکھنے والی ایک سائنس دان کو انسان کے ایمبریو یا جنین کی جینیاتی ساخت میں ترمیم کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر کیتھی نیاکان نے پیر کے روز انسانی جنین (رحم مادر میں نامکمل بچہ) میں ترمیم کی تحقیق کا حق جیت لیا ہے۔
یہ لائسنس تولیدی ضابطہ کار انسانی فرٹلائزیشن اور ایمبریا لوجی اتھارٹی کی طرف سے انسانی عطیہ ایمبریوز میں تبدیلی سے متعلق جینیاتی تحقیق کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر کیتھی نیاکان دنیا کی دوسری سائنس دان بن گئی ہیں، جنھیں انسانی جینیات پر تجربات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ان سے قبل پچھلے سال چینی سائنس دانوں کی ایک ٹیم کی طرف سے بے اولاد جوڑوں کی مدد کے لیے جنین میں تبدیلی کے ذریعے ناقص جینز ٹھیک کرنے کی کوشش نا کام ہو گئی تھی۔
بانجھ پن اور اسقاط حمل کی شرح کم کرنے کے حوالے سے ماہرین کی جانب سے اس اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
تاہم سائنس دانوں کو تحقیق میں استعمال کیے جانے والے ایمبریوز کو تولیدی علاج کی غرض سے کسی عورت میں ڈالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
تحقیق میں استعمال کے لیے جنین بانجھ پن کا آئی وی ایف علاج کرانے والے جوڑوں کی طرف سے عطیہ کیا جائے گا، جن کو اس کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اس تحقیق میں سائنس دان مرد اور عورت کے تولیدی خلیات ملنے سے پیدائش کے پہلے مرحلے کے ابتدائی سات دنوں میں تولیدی انڈوں کی ترقی کا تجزیہ کریں گے یعنی تقریباً ایک واحد تولیدی خلیے سے ڈھائی سو کے ارد گرد خلیوں کی تقسیم کے عمل کا مشاہدہ کریں گے۔
محققین کو امید ہے کہ تحقیق سے انھیں انسانی جنین کی صحت کی ترقی کے لیے اہم معلومات حاصل ہو گی۔ جس سے بانجھ پن کے علاج آئی وی ایف کی کامیابی کی شرح کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی جبکہ فی الحال تولیدی انڈوں میں سے ایک تہائی زندہ پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔
ڈاکٹر کیتھی نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ یہ تحقیق انسانی زندگی کے ابتدائی مراحل کے بارے میں اہم معلومات فرام کرے گی اور بانجھ پن کے علاج اور اسقاط حمل کی وجوہات کو سمجھنے میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ماہ اپنی درخواست جمع کرواتے ہوئے ڈاکٹر کیتھی نیاکان نے کہا تھا کہ مجوزہ تحقیق ایک صحت مند جنین تیار کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔
ہم واقعی ان جینز کو سمجھنا چاہتے ہیں جن سے انسانی ایمبریو کامیابی سے ایک صحت مند بچے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی مراحل میں جینیاتی ڈی این اے میں تبدیلی کرنا تحقیق کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل بانجھ پن اور اسقاط حمل کے واقعات انتہائی عام ہوتے جا رہے ہیں لیکن ان کی وجوہات کے بارے میں اب تک زیادہ سمجھا نہیں گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری تحقیق واقعی بانجھ پن کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور بالآخر انسانی زندگی کے ابتدائی مراحل کی ایک گہری تفہیم فراہم کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر کیتھی نے کہا کہ یہ لائسنس انھیں تحقیق کو مزید آگے لے جانے کے قابل بنائے گا۔
تاہم لائسنس کے ساتھ ایک شرط بھی موجود ہے جس کے مطابق تحقیق میں جنین میں تبدیلی کا کام اس وقت تک شروع نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک کہ تحقیق کو اخلاقیات کی منظوری حاصل نہیں ہو جاتی ہے۔
یہ تحقیق فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ کی تجربہ گاہیں لندن اور ہرٹفورڈ شائر میں کی جائی گی، جو انسانی جین میں ترمیم کی تکنیک 'سی آر آئی ایس پی آر' نامی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے یہ ٹیکنالوجی اس بات کو ممکن بناتی ہے کہ سائنس دان کم قیمت میں انسانی ڈی این اے میں چھوٹے پیمانے پر ترمیم کر سکتے ہیں۔
خلیوں کے ڈی این اے یا جنین میں دانستہ تبدیلی لانے کے طریقہ کار پر انسانی جینیات پر انتباہ کے گروپ کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
جن کا کہنا ہے کہ ترمیم جینوم کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کو فطرت کے بجائے انسان تشکیل دینا شروع کر دیں گے اور اس طرح ڈیزائنر بچوں کی پیدائش کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔