پاکستان کی حکومت نے مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کالز کو مہنگا کرنے کی تجویز دی ہے۔ جب کہ 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم اور سیلز ٹیکس میں کمی سے دو لاکھ روپے تک قیمت کم ہونے کا امکان ہے۔
بجٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے تمام اقسام کے موبائل ٹیلی فون پر ٹیکسز میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
فری لانس کام کرنے والوں پر ایک فی صد ٹیکس
اسی طرح فری لانس کام کرنے والوں پر ایک فی صد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس کے بعد ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ‘یوٹیوب’ کے ذریعے چینل چلانے والے افراد کو ایک فی صد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
علاوہ ازیں آن لائن خریداری پر 17 فی صد سیلز ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
بجٹ پیش کیے جانے کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ممبر پالیسی طارق چوہدری نے صحافیوں کو بجٹ کے تکنیکی نکات کے حوالے سے بریفنگ دی۔
انٹرنیٹ اور درآمدی موبائل فون مزید مہنگے
نئے بجٹ میں انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرنے والوں کے لیے ٹیکسز میں اضافے کی تجویز کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت تین منٹ سے زائد جاری رہنے والی فون کال، انٹر نیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا اطلاق ہو گا اور موبائل صارف کی کال تین منٹ سے بڑھے گی تو اس کے موجودہ ریٹس کے علاوہ فی کال ایک روپیہ اضافی چارج کیا جائے گا۔
طارق چوہدری کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کے موجودہ ریٹس پر پانچ جی بی سے زائد انٹرنیٹ استعمال کرنے پر ہر جی بی پر پانچ روپے اضافی ٹیکس وصول کیا جائے گا اور اس اقدام سے حکومت کو 70 ارب روپے حاصل ہوسکیں گے۔
حکومت نے بیرون ملک سے منگوائے جانے والے ٹیلی فون سیٹس پر ٹیکسز میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔
اس حوالے سے ایف بی آر کے ممبر پالیسی طارق چوپدری کا کہنا تھا کہ درآمدی ٹیلی فون سیٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے۔
البتہ انہوں نے تجویز دی کہ موبائل فون سروسز پر موجودہ ود ہولڈنگ ٹیکس 12.5 فی صد سے کم کر کے 10 فی صد کردیا جائے گا اور کچھ عرصے بعد اسے آٹھ فی صد تک لایا جائے گا۔
ٹیلی کام سیکٹر پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 17 فی صد سے کم کر کے 16 فی صد کردیا گیا ہے۔
850 سی سی تک گاڑیاں سستی
نئے بجٹ میں چھوٹی گاڑیوں کے لیے ٹیکسز میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی مینو فیکچرنگ کے لیے کٹس کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح میں 17 فی صد سے 1 فی صد تک کمی تجویز کی گئی ہے۔
ملک کے اندر مقامی طور پر بنائی گئی 850 سی سی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کردیا گیا۔ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے کم کر کے ساڑھے 12 فی صد کردی گئی۔
الیکٹرک گاڑیوں کی سی بی یو کی درآمد کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔
مختلف شعبوں کو مراعات
ایف بی آر کے ممبر پالیسی طارق چوہدری نے بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کی ویلیو چین کے خام مال کی ڈیوٹیز میں نمایاں کمی کی گئی ہیں، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے 11 ارب روپے کی رعائتیں دی گئی ہیں۔
اسی طرح ایچ آر سی اور اسٹین لیس اسٹیل میں 11 ارب جب کہ کیمیکل انڈسٹری کو 6 ارب روپے کی مراعات دی گئی ہیں۔ فارما سوٹیکل انڈسٹری کو دو ارب روپے کی مراعات دی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ لیدر، پولٹری کے طبی سامان کے خام مال پر ڈیوٹیز کم کردی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ فاٹا اور پاٹا میں انڈسٹری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے جب کہ آئی ٹی سروسز کی برآمد بڑھانے کے لیے زیرو ریٹ ٹیکس کا اعلان کیا گیا ہے۔
حکومت نے فروٹ جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمےکا اعلان کیا ہے جب کہ قرآن پاک کی اشاعت کے لیےدرآمدی کاغذپر ٹیکس استثنیٰ دیا گیا ہے۔
آئی ٹی زون کے لیے پلانٹ، مشینری، سازو سامان اور خام مال پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے۔
نئے ٹیکسز عائد
فنانس بل کے مطابق حکومت نے آن لائن مارکیٹ پلیس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اب آن لائن خریداری پر 17 فی صد سیلز ٹیکس عائد کرد یا گیا ہے۔
حکومت نے ٹائروں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ جب کہ درآمدی اشیا میں کمی لانے کے لیے کھانے پینے کی بیشتر اشیا پر ڈیوٹیز میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانوں کے کھانے پینے کی درآمدی اشیا اور کتوں سمیت جانوروں کی خوراک ،درآمدی مکھن اور پنیر کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ درآمدی شیمپو، پرفیومز، کاسمیٹکس، ہرقسم کی درآمدی تیار شدہ خوراک، پیکڈ سامان، درآمدی دودھ، کریم، فروزن درآمدی گوشت، سیریلز، سونا اور چاندی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان میں تیار ہونے والی لیڈ بیٹریوں ،ری کلیمڈ اور استعمال شدہ لیڈ بیٹریوں پر سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا جا رہا ہے۔
لگژری مصنوعات پر نئے ٹیکسز عائد
فنانس بل کے مطابق ریفائنری پر چار ارب روپے، آٹو صنعت پر 15 ارب روپے اور لگژری مصنوعات پر 11 ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں۔
خام آئل اور دیگر مصنوعات پر زیرو ریٹنگ ختم کر کے 17 فی صد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے جس سے حکومت کو 38 ارب روپے حاصل ہو سکیں گے۔
ایل این جی، سونا، چاندی، فلڈ ملک پر 17 فی صد یکساں سیلز ٹیکس عائد کرنے کے اقدام سے حکومت کو 35 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
فنانس بل کے مطابق مجموعی طور پر سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سے 215 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
کرونا مصنوعات کے لیے چھوٹ
فنانس بل میں حکومت نے کرونا وبا سے نبردآزما ہونے کے لیے کرونا سے متعلق مصنوعات کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ مزید چھ ماہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت نے تیار شدہ فوڈ سپلیمنٹ میں استعمال ہونے والی اشیا پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی جب کہ جان بچانے والی چھ ادویات پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔
بجٹ میں 12 فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم
حکومت نے اس بجٹ میں 12 سروسز پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل صرف فائلر افراد کو کیش نکلواتے وقت ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ حاصل تھی۔ البتہ اب تمام افراد کے لیے کیش نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کیش کے علاوہ بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔ بیرون ملک رقوم بھیجنے پرعائد ود ہولڈنگ ٹیکس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
فضائی سفر کے ٹکٹ سستے ہونے کا امکان
اس کے علاوہ ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل ایئر ٹکٹس پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس، معدنیات نکالنے پر، اسٹاک ایکسچینج کے ممبرز پر، سی این جی اسٹیشنز پر، پیٹرولیم مصنوعات پر اور خصوصی اقتصادی زونز کے نئے سرمایہ کار اور بلڈرز پر ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ کردیا گیا ہےْ
حکومت کا کہنا ہے کہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز میں سرمایہ کاری اور اشیا کی درآمدات پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ جب کہ ایس ایم ایز کے لیے اسپیشل ٹیکس ریجیم نافذ کیا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں زرعی مشینری اور کتابوں کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے ۔
روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے تحت الیکٹرانک گاڑیوں اور موبائل فون کی خریداری کی اجازت دی گئی ہے۔
استعمال شدہ گاڑیوں کے کاروبار کو دستاویزات پر لانے کا فیصلہ
حکومت نے اس بجٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کے کاروبارکو ڈاکیومنٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ اس سے قبل استعمال شدہ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے افراد کسی بھی قسم کے ٹیکس نیٹ سے باہر تھے البتہ ان کے کاروبار کو ڈاکیومنٹ کرنے سے ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا۔
اس فنانس بل کے تحت وہ صارفین جن کا بجلی کا بل ماہانہ 25 ہزار روپے سے زائد آتا ہے اور وہ نان فائلرز ہیں، ان پر اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کے جی پی فنڈ پر بھی ٹیکس عائدکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔