بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بلند شہر میں گائے کو ذبح کرنے کے خلاف ایک مظاہرے میں، دائیں بازو کے حامی ہجوم نے ایک پولیس افسر اور بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک کارکن کو ہلاک کر دیا۔
پولیس افسر، انسپیکٹر سوبودھ کمار سنگھ اور بی جے پی کا کارکن سومیت موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ انسپیکٹر سنگھ، سن 2015 میں گاؤ کشی کے خلاف بلوے میں ہلاک ہونے والے محمد اخلاق کے کیس کے تفتیشی افسر تھے۔
انسپیکٹر سنگھ کی بہن نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بھائی کی ہلاکت پولیس کی ایک سازش کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی اخلاق احمد کیس کے تفتیشی افسر تھے اس لئے انہیں ہلاک کیا گیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ سوبودھ کمار سنگھ کو ’’شہید قرار دیا جائے‘‘ اور ان کے لئے ’’ایک یاد گار‘‘ تعمیر کی جائے، اور اس کا اعلان اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کریں۔
اس ہلاکت کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا ہے جب لاکھوں مسلمان تبلیغی اجتماع میں شرکت کے لیے یکم دسمبر سے بلند شہر آنا شروع ہوئے۔
تین دسمبر کو یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب چند افراد نے مبینہ طور پر گائے کی باقیات کو ماہاوا گاؤں کے ایک فارم میں دیکھا۔ اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ہندتوا گروپوں کے افراد وہاں اکٹھا ہونا شروع ہوگئے اور ایک ہائی وے کو بند کر دیا۔ اتر پردیش میں گائے کو ذبح کرنا غیر قانونی عمل ہے۔
اس کے بعد یہ ہجوم قریب کے گاؤں میں ایک پولیس چوکی کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر ہجوم نے ایف آئی آر درج کرنے پر اصرار کیا۔ جب ہجوم میں اضافہ ہوتا گیا تو ایک قریبی گاؤں سے، جہاں ایک باقاعدہ پولیس سٹیشن ہے، وہاں کی پولیس کی اضافی نفری چوکی پہنچ گئی۔ تاہم، ہجوم نے ایف آئی آر درج ہونے تک منتشر ہونے سے انکار کر دیا۔
بھارتی اخبارات کے مطابق اس کے بعد پولیس اور ہجوم میں جھڑپیں شروع ہو گئیں، ہجوم کے پتھراؤ سے متعدد پولیس اہل کار زخمی ہوئے، جس پر پولیس نے گولی چلا دی۔ خبروں کے مطابق، ہجوم میں شامل چند افراد نے بھی فائرنگ کی جس کی زد میں آ کر انسپیکٹر سنگھ ہلاک ہو گیا۔ ساتھ ہی، بی جے پی کا ایک کارکن بھی گولی لگنے سے مارا گیا۔
اس واقعہ کے بعد پولیس نے دو ایف آئی آر درج کی ہیں۔ ایک گائے کو ذبح کرنے کی اور دوسری پولیس کے خلاف تشدد کے معاملے پر۔
آخری اطلاعات تک پولیس نے بلوے میں شامل چار افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔