امریکی اور یورپی سرزمین پر داعش کے دہشت گرد حملوں کے ڈر کے پیش نظر، امریکہ، برطانیہ اور جرمنی انتہا پسندوں کے خلاف فوجی اقدام اور فضائی حملوں میں وسعت اور شدت لا سکتے ہیں۔
تاہم، ’برینٹ اسکروکروفٹ سینٹر فور انٹرنیشنل سکیورٹی‘ کے سربراہ، بیری پاول نے کہا ہے کہ، حالانکہ مزید بمباری اہمیت کی حامل ہے، لیکن داعش کو شکست دینے کے سلسلے میں یہ اقدام کافی نہیں۔
پاول کے بقول، ’مزید اہداف کا نشانہ بنایا جانا اچھی چیز ہے۔ اور ایک ہی طریقہ ہے کہ فوجی کارروائیوں میں تیزی لائی جائے۔ چونکہ ہر طرح کا عمل معاون ثابت ہوگا‘۔
اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی طول پکڑ سکتی ہے۔ بقول اُن کے، ’برعکس اس کے کہ چھوٹی سطح کے اقدامات اٹھائے جائیں، ہم 10 چھوٹے قدم اٹھا پا رہے ہیں‘۔
پاول نے کہا ہے کہ بات یہ ہے کہ امریکہ پر پہلے ہی ایک حملہ ہو چکا ہے، اور اس حملے کے بعد جو ہمیں کرنا چاہیئے ہم کر رہے ہیں‘۔
اگست 2014ء کے بعد، امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خلاف 8000 سے زائد فضائی کارروائیاں کی ہیں۔ تاہم، گروپ ابھی تک تیل اور قیمتی نوادرات کی منافعہ بخش تجارت کر رہا ہے، اور اُنھیں اب بھی دونوں ملکوں کے کافی اہم رقبے اور شہروں پر تسلط حاصل ہے۔
جوناتھن ووڈ ’گلوبل رِسک انالسز‘ کے معاون سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’اس لڑائی میں فضائی کارروائیوں میں تیزی لانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘۔
ووڈ کے بقول، ’ایسے میں جب امریکی اتحادی جن کے پاس معلومات، انٹیلی جنس اور نگرانی کے یکساں ذرائع ہیں، نشانہ بنانے کے انداز میں کوئی ڈرامائی تبدیلی متوقع نہیں‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس بات کی توقع نہیں کہ فرانس اور برطانیہ بمباری کے انداز میں کوئی خاص تبدیلی لا سکیں۔
ووڈ نے بتایا کہ زیادہ فضائی حملوں کے نتیجے میں ڈرامائی نتائج کا حصول مشکل ہے۔
ایک طویل عرصے سے، امریکہ اور اُس کے اتحادیوں اس بات کے قائل لگتے ہیں کہ داعش کے خلاف لڑائی کو محض فضائی کارروائی سے نہیں جیتا جاسکتا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شام میں سیاسی عبوری دور کے بارے میں بین الاقوامی سمجھوتے کی بات کی ہے، جس کی بدولت ہر ملک اور ہر دھڑا، شامی فوج اور مخالفین اور ساتھ ہی روس اور امریکہ اور دیگر فریق داعش سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔
بقول اُن کے، ’سوچیں اگر ہم کسی قسم کا سیاسی تصفیہ کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو کتنا جلد دہشت گردی کے اس افریت سے نجات مل سکتی ہے‘۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جنوری سے اقوام متحدہ ایک لائحہ عمل کو آگے بڑھانا چاہتا ہے جس کے تحت شام کے اندر سیاسی مذاکرات ہوں اور ملک بھر میں جنگ بندی کی جائے۔