اقوام متحدہ نے کہاہے کہ برما کی مغربی ریاست راکین میں سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہورہی ہے، جہاں حالیہ عرصے میں بودھ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات میں درجنوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے تھے۔
انسانی بھلائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ایک عہدے دار کا کہناہے کہ گذشتہ تین ہفتوں سے جھڑپوں کی خبریں نمایاں طورپر کم ہوچکی ہیں۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی سطح بدستور بہت بلند ہے اور بعض علاقوں میں لڑائیوں کے اکا دکا واقعات ہورہے ہیں۔
برما کے حکام کا کہناہے کہ مئی کے آخر میں شروع ہونے والے فسادات میں ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 87 ہے ۔ راکین کے علاقے میں مسلمانوں اور بودھوں کے ایک دوسرے پر حملوں اور جوابی حملوں کا آغاز ان خبروں کے بعد ہواتھا کہ تین مسلمانوں نے مبینہ طور پر ایک بودھ خاتون کو جنسی زیادتی کانشانہ بنانے کے بعد ہلاک کردیاتھا۔
ریاست میں پیدا ہونے والی بے چینی سے روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال کو دنیا بھر پر مزید نمایاں کرنے میں مدد ملی، جنہیں برما شہری حقوق دینے سے انکار کرتا ہے اور اسے اپنے ملک کا نسلی گروپ تسلیم نہیں کرتا۔ اکثر برمی ، روہنگیا مسلمانوں کو ، جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں۔
ہومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں برما کی سیکیورٹی فورسز پر یہ الزام لگاچکی ہیں برما کی سیکیورٹی فورسز نے بلوؤں کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مہم چلائی اور بڑے پیمانے پر ان کی گرفتاریاں کی۔
برما کی حکومت ، جس کی اپنی نسلی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی طویل تاریخ ہے، ان الزامات سے انکار کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے محدود پیمانے پر امن وامان کی بحالی کے لیے کارروائیاں کیں۔ راکین میں جون کے آغاز سے ہنگامی حالت نافذ ہے۔
انسانی بھلائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ایک عہدے دار کا کہناہے کہ گذشتہ تین ہفتوں سے جھڑپوں کی خبریں نمایاں طورپر کم ہوچکی ہیں۔
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی سطح بدستور بہت بلند ہے اور بعض علاقوں میں لڑائیوں کے اکا دکا واقعات ہورہے ہیں۔
برما کے حکام کا کہناہے کہ مئی کے آخر میں شروع ہونے والے فسادات میں ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 87 ہے ۔ راکین کے علاقے میں مسلمانوں اور بودھوں کے ایک دوسرے پر حملوں اور جوابی حملوں کا آغاز ان خبروں کے بعد ہواتھا کہ تین مسلمانوں نے مبینہ طور پر ایک بودھ خاتون کو جنسی زیادتی کانشانہ بنانے کے بعد ہلاک کردیاتھا۔
ریاست میں پیدا ہونے والی بے چینی سے روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال کو دنیا بھر پر مزید نمایاں کرنے میں مدد ملی، جنہیں برما شہری حقوق دینے سے انکار کرتا ہے اور اسے اپنے ملک کا نسلی گروپ تسلیم نہیں کرتا۔ اکثر برمی ، روہنگیا مسلمانوں کو ، جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں۔
ہومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں برما کی سیکیورٹی فورسز پر یہ الزام لگاچکی ہیں برما کی سیکیورٹی فورسز نے بلوؤں کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مہم چلائی اور بڑے پیمانے پر ان کی گرفتاریاں کی۔
برما کی حکومت ، جس کی اپنی نسلی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی طویل تاریخ ہے، ان الزامات سے انکار کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے محدود پیمانے پر امن وامان کی بحالی کے لیے کارروائیاں کیں۔ راکین میں جون کے آغاز سے ہنگامی حالت نافذ ہے۔