پاکستان کے شمالی ضلع کوہستان میں مسافر بسوں کے قافلے پر منگل کو ایک حملے میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ فوجی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے راولپنڈی سے گلگت جانے والی بسوں کو علی الصبح شاہراہ قراقرم پر ہربن نالا نامی غیر آباد مقام پر روک کر پہلے مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھے اور پھر انھیں قطار میں کھڑا کر ان پر گولیوں کی بارش کر دی۔
ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا تعلق شیعہ برادری سے بتایا گیا ہے اور پولیس اس کارروائی میں مقامی سنی برادری کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کر رہی ہے۔
نامعلوم افراد کے حملے کے بعد گلگت میں صورت حال کشیدہ ہو گئی اور شہر میں مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات بھی ملیں۔
انتظامیہ نے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی، جب کہ تعلیمی ادارے بھی تین روز تک بند رہیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے گلگت کے عوام کو پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ لوگ بدھ کو مقتولین کے جنازوں کے دوران پر احتیاط برتیں کیوں کہ ’’دہشت گرد‘‘ اس موقعے سے بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
رحمٰن ملک نے بتایا کہ حکام کو ابتدائی تفتیش کے دوران اہم شواہد ملے ہیں، لیکن اُنھوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
اس سے قبل ہزارہ ڈویژن کے کمشنر خالد عمرزئی کا کہنا تھا کہ پچھلے چند ہفتوں سے گلگت میں شیعہ اور سنی برادریوں کے درمیان کسی تنازع پر کشیدگی جاری تھی اور مسافر بسوں پر حملہ بھی اُسی سلسلے کی کڑی ہو سکتا ہے۔
’’حملہ آور گلگت سے آئے، مسافروں کو بسوں سے اتار کر ان کی شناخت کے بعد انھیں فائرنگ کرکے ہلاک کیا اور پھر فرار ہوگئے۔‘‘
اس حملے میں زخمی ہونے والے افراد کو چلاس کے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔
اس واقعے کے بعد پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
گلگت سے آنے والی گاڑیوں کو چلاس سے آگے جانے کی اجازت نہیں جبکہ راوالپنڈی کی طرف سے جانے والی ٹریفک کو بشام کے مقام پر روک دیا گیا ہے۔