شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی تکمیل کے بعد نہ صرف روزمرہ کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں بلکہ اس علاقے کے راستے افغانستان سے دو طرفہ تجارت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔
قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کے عروج سے قبل شمالی وزیرستان کے دو اہم قصبوں میران شاہ اور میر علی کو خطے میں تجارتی اور کاروباری مراکز کی حیثیت حاصل تھی۔ لیکن 2006ء سے جون 2014ء تک جاری رہنے والی عسکریت پسندی کی لہر کے باعث ان دونوں قصبوں کی تجارت کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔
اس دوران ان علاقوں میں ریاستی عمل داری برائے نام رہ گئی تھی اور علاقے کے اہم قبائلی رہنماؤں، تعلیم یافتہ افراد اور تاجروں نے نقل مکانی کر کے خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں میں سکونت اختیار کرنا پڑی تھی۔
جون 2014ء کے وسط میں جب حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف ضربِ عضب کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی تو اس کارروائی کے نتیجے میں نہ صرف گھروں، حُجروں اور دیگر نجی اور سرکاری املاک میں قائم عسکریت پسندوں کے مراکز کو مسمار کر دیا گیا بلکہ میران شاہ اور میر علی میں سیکڑوں دکانیں، بازار اور ہوٹل بھی تباہ ہوئے۔
جدید طرز کی دو منزلہ مارکیٹس
سب سے زیادہ متاثر ہونے والا میر علی کا طویل بازار تھا جس کو فوجی کارروائی کے دوران مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا تھا۔
لیکن فوجی کارروائی ہی کے دوران فوج کے زیرِ انتظام شمالی وزیرستان کے اہم قصبوں میران شاہ، میر علی، رزمک اور غلام خان کو آپس میں ملانے والی سڑکوں بلکہ اس علاقے کو بنوں اور جنوبی وزیرستان سے ملانے والی شاہراہوں کے دونوں جانب سکیورٹی فورسز کی چوکیوں کی تعمیر کی گئی۔ اس دوران ان املاک کو بھی از سرِ نو تعمیر کیا گیا جو عسکریت پسندوں نے خودکش اور بم حملوں سے تباہ کردی تھیں۔
اسی دوران میران شاہ اور میر علی میں سیکڑوں دکانوں پر مشتمل دو منزلہ جدید طرز کی مارکیٹ بھی تعمیر کی گئی۔
میران شاہ میں تعمیر کی گئی 32 عمارتوں پر مشتمل کمپلیکس مارکیٹ میں لگ بھگ 1341 دکانیں ہیں۔ اور اسی طرز کی ایک مارکیٹ میر علی میں بھی تعمیر کی گئی ہے۔
جدید طرز کے ان تجارتی مراکز میں مساجد، پارک اور بچوں کے کھیل کے میدان بھی ہیں۔
گو کہ ان تجارتی مراکز میں کاروبار ابھی تک باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوا ہے لیکن ان دکانوں کو اب زمین کے مالکان اور کرایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ دکانوں کی ملکیت کا تعین کرنے کے لیے کمیٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔
بعض مالکان جن کی زمین سڑکوں، مساجد اور پارکوں کی زد میں آئی ہیں ان کو زمین کی قیمت ادا کی جائے گی۔
میران شاہ کے تجارتی مراکز میں موجود دکانداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ایک دکان کا ماہوار کرایہ 10 ہزار روپے تک وصول کیا جا رہا ہے جو ان کے بقول فی الوقت زیادہ ہے۔
تاہم ان کے بقول جب حالات مکمل طور پر پُر امن اور کاروبارِ زندگی ماضی کی طرح بحال ہو جائے گا تو پھر ان کے لیے یہ کرایہ ادا کرنا مشکل نہیں ہو گا۔
سرکاری سطح پر تعمیر کی جانے والی مارکیٹوں اور تجارتی مراکز کے علاوہ عام قبائلی اب ذاتی طور پر سڑک کے کنارے موجود جائیدادوں پر مارکیٹ اور دکانیں تعمیر کر رہے ہیں۔
سرکاری تجارتی مراکز اور دکانوں کے کرایے کم اور شرائط آسان ہیں، لہذا اسی بنیاد پر ان مراکز میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں تیزی سے بحال ہو رہی ہیں۔
غلام خان گزرگاہ
شمالی وزیرستان اور افغانستان کے درمیان غلام خان گزرگاہ کے ذریعے روایتی تجارت کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ مگر اسے باقاعدہ بنانے کے لیے کاوشیں اور اقدامات چند سال پہلے شروع کیے گئے تھے۔
غلام خان کی سرحدی گزرگاہ تک نہ صرف میران شاہ بلکہ بنوں اور میر علی سے بھی علیحدہ علیحدہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جب کہ غلام خان میں کسٹم، ٹرانسپورٹ، امیگریشن اور دیگر سرکاری محکموں کے اہلکاروں اور افسران کے لیے دفاتر اور جدید طرز کے رہائشی بلاک تعمیر کیے گئے ہیں۔
غلام خان کی سرحدی گزرگاہ کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کا سلسلہ اب شروع ہو چکا ہے اور نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان سے بھی تجارتی سامان سے لدے ٹرک اور ٹرالر اس سڑک پر رواں دواں ہیں۔ اس راستے کے ذریعے افغانستان سے کوئلہ اور دیگر معدنیات پاکستان پہنچائی جا رہی ہیں۔
غلام خان کی سرحدی گزرگاہ پر تجارت شروع ہونے سے سڑکوں کے کنارے اب ہوٹل اور دکانیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں اور یہاں بھی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے۔
گو کہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان جانے والی شاہراہوں پر سکیورٹی فورسز بشمول خاصہ داروں کی جانب سے رشوت کی وصولی کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے مگر تاجروں کا شکوہ ہے کہ حکام کی رشوت خوری تاحال جاری ہے۔
میر علی میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کرنے والے تاجروں کی تنظیم کے صدر انجینئر ملک یحییٰ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جگہ جگہ سکیورٹی اہلکار ٹرکوں اور گاڑیوں سے زبردستی پیسے وصول کرتے ہیں جس سے ان کے بقول تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
پیٹرول پمپس
ضربِ عضب سے قبل شمالی وزیرستان میں 73 پیٹرول اور ڈیزل پمپس تھے۔ دہشت گردی اور بعد میں فوجی کارروائی کے دوران یہ تمام پمپس تباہ ہو گئے تھے۔ اب مالکان نے از خود 30 پمپس بحال کر دیے ہیں جبکہ باقیوں کے مالکان کو زرِ تلافی کے معاملے پر حکومت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
پیٹرول پمپس مالکان کی تنظیم کے صدر ملک رقیب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ معاوضہ انتہائی کم ہے اور اس معاوضے سے تباہ شدہ پیٹرول پمپس کی بحالی مشکل ہے۔ اُنھوں نے حکومت سے معاوضے کی رقم بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
فوجی آپریشن کے دوران مکانات اور دیگر نجی اور تجارتی املاک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔ نقصانات کے ازالے کے لیے حکومتی ادارے اور عہدیدار تو بہت زیادہ دعوے کرتے رہے ہیں مگر متاثرہ قبائلی صورتِ حال سے مطمئن نہیں۔
حکومت نے آپریشن میں مکمل تباہ ہونے والے مکان کے لیے 4 لاکھ روپے جب کہ جزوی متاثر یا تباہ ہونے والے مکان کے لیے 1 لاکھ 60 ہزار روپے کے معاوضے کا اعلان کر رکھا ہے جو مقامی قبائلیوں کے بقول انتہائی کم ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ تباہ ہونے والے مکانات میں ضائع یا تباہ ہونے والی دیگر اشیا اور سامان کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جا رہا۔