امریکی ’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن‘ نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے کیلی فورنیا کے قتل عام میں ملوث حملہ آور انٹرنیٹ پر رابطوں سے بہت پہلے ہی پُرتشدد انتہا پسند خیالات کے زیر اثر تھے، جب کہ اُنھوں نے جہاد اور شہادت کے بارے میں گفتگو دو برس قبل شروع کی تھی۔
یہ بات ایف بی آئی کے سربراہ، جیمس کومی نے بدھ کے روز سینیٹ کی عدالتی کمیٹی کے سامنے شہادت دیتے ہوئے بتائی۔
اُنھوں نے کہا کہ کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں حملے سے ’کافی عرصہ قبل‘ سید رضوان فاروق اور اُن کی بیوی، تاشفین ملک شدت پسندی پر مائل تھے۔
اُن کی شادی گذشتہ سال ہوئی۔
کومی نے یہ بھی بتایا کہ دونوں غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کے زیر اثر تھے، جب کہ اُنھوں نے حملہ آوروں کو، ’داخلی طور پر نمودار ہونے والے پُرتشدد انتہاپسند‘ قرار دیا۔
بقول کومی، ’ہم گہرا سوچ بچار کر رہے ہیں، یہ پتا لگانے کے لیے کہ اُن کی کِن سے قربت تھی، اور اُن کے خیالات پر کس کا غلبہ تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’ہم یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں آیا کسی نے اُن کی اعانت کی، مدد فراہم کی، ہتھیار فراہم کیے؟ ہم سخت چھان بین کر رہے ہیں یہ سمجھنے کے لیے کہ کیا اُن کے کوئی اور منصوبے تھے، اُسی روز یا پھر اُس سے پہلے۔ اور (تفتیش) کا یہ کام جاری رہے گا‘۔
کومی نے کہا کہ وہ کمیٹی کو محدود تفصیل بتا سکتے ہیں، چونکہ تفتیش کا عمل ابھی جاری ہے۔
ایف بی آئی اِس حملے کو دہشت گرد کارروائی خیال کرتی ہے۔ لیکن، ابھی تک ایسے کوئی شواہد نہیں کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے فاروق اور پاکستان میں جنم لینے والی تاشفین کسی دہشت گرد سیل یا گروہ کا حصہ تھے۔
گذشتہ بدھ کو، فاروق اور تاشفین نے ریاست کیلی فورنیا میں لاس اینجلس کے مشرق میں واقع، سان برنارڈینو کے مقامی حکومت کے ایک صحت مرکز پر حملہ کرکے 14 افراد کو ہلاک اور 21 کو زخمی کیا۔
وہ کار میں بیٹھ کر موقعے سے فرار ہوئے۔ تاہم، قریبی رہائشی مضافات میں پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے کے دوران ہلاک ہوئے۔
تاشفین نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں داعش کے شدت پسند لیڈر کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا؛ جب کہ فاروق کا دہشت گرد گروپوں سے منسلک افراد کے ساتھ رابطہ تھا۔
حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ کسی نے قانونی طور پر خریدا تھا، جس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ شخص فاروق کا دور کا رشتہ دار تھا۔ اب تک، فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔