پاکستان کی وفاقی کابینہ نے شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی منظوری دی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کئے جانے کے خلاف وزارت داخلہ کو نظر ثانی کی درخواست نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ اب نظر ثانی حکومت کو کرنی ہے، اب عدالت اور سپریم کورٹ کو نوٹس لینا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان حکومت سمجھتی ہے کہ شہباز شریف اپنی مفاہمتی پالیسی کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں۔ لہذا، ان کے تمام راستے روکے جا رہے ہیں، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کے 5 افراد پہلے ہی مفرور ہیں۔ لہذا، کابینہ نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی ہے۔
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے عید تعطیلات کے باعث سرکولیشن سمری کے ذریعے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دیدی ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے شہباز شریف کا کیس ای سی ایل میں ڈالا ہے، کیونکہ آرٹیکل 25 کے تحت اس کیس میں سوائے شہباز شریف کے باقی تمام 14 ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل تھے اور شریف فیملی کے 5 افراد مفرور ہیں۔ کابینہ کمیٹی نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے حوالے سے سمری کابینہ کو بھیجی تھی جو سرکولیشن سمری کے ذریعے منظور ہو چکی ہے۔
حکومت سے درخواست نہیں کریں گے، مریم اورنگزیب
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کئے جانے کے خلاف وزارت داخلہ کو نظر ثانی درخواست نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پارٹی رہنما مریم اورنگزیب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے کسی منصوبے میں کرپشن نہیں کی۔ عدالت نے شہباز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی، لیکن انہیں ایئرپورٹ پر روکا گیا اور وجہ یہ بتائی کہ سسٹم اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ اس لئے جانے نہیں دیا جا سکتا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے یہ غیر قانونی سمری جاری کی گئی۔ بقول ان کے، عید کے دن توہین عدالت کی گئی اور یہ توہین عدالت عمران خان کے حکم پر کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حکمران شہباز شریف کے خوف میں مبتلا ہیں، چھٹی والے دن امیگریشن، ایف آئی اے، نیب کے دفاتر کھولے گئے۔ یہ معاملہ اب شہباز شریف یا مسلم لیگ (ن) کا نہیں بلکہ لاہور ہائی کورٹ اور حکومت پاکستان کا ہے۔ عدالت کو عمران خان، شہزاد اکبر اور وزارت داخلہ کو بلا کر پوچھنا چاہیے کہ کیوں عید والے دن غیر قانونی سمری سرکولیٹ کی گئی۔
حکومت شہباز شریف کو کوئی رعایت نہیں دینا چاہتی، تجزیہ کار سلمان عابد
تجزیہ کار سلمان عابد نے اس معاملہ پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان شہباز شریف کے حوالے سے اختلاف بھی نظر آرہا ہے۔ حکومت کو خطرہ ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) سامنے آتی ہے تو اس میں شہباز شریف ہی قائدانہ کردار میں ہوں گے جس کے لیے حکومت شہباز شریف کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مریم نواز کا بیانیہ سخت جبکہ شہباز شریف کا مفاہمت والا بیانیہ ہے۔ بقول ان کے، امکان یہ تھا کہ شہباز شریف حالیہ دورہ لندن میں اپنے بھائی نوازشریف سے اس معاملے میں بات کرنا چاہتے تھے کہ کونسے بیانیے کو آئندہ انتخابات تک برقرار رکھا جائے۔ شہباز شریف کے لیے اسٹیبلشمنٹ بھی نرم گوشہ رکھتی ہے اور ایسے میں ان کا لندن جانا مفاہمت کی سیاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا تھا۔ لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر ایک پیج پر نظر نہیں آرہے اور شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال کر انہیں روکنا اسی کی کڑی نظر آتی ہے۔
شہباز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے ایک مرتبہ علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی، لیکن ان کا نام سٹاپ لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے انہیں روک دیا گیا تھا۔ ائیرپورٹ پر روکے جانے کے بعد نیب نے خط لکھ کر حکومت کو شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی تھی۔