واشنگٹن —
امریکی حکومت ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے مذاکرات کو ان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے۔ امریکی محکمہٴخارجہ کے معاون وزیر، ڈین فیلڈمین نے ’وائس آف امریکہ‘ اردو سروس کے سربراہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق ہماری پالیسی کا تعلق ہے، صدر براک اوباما نے پچھلے سال اپنی تقریر میں اس پروگرام کی شفافیت واضح کردی تھی۔ ہم خطے میں امن اور استحکام کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں‘۔
پاک امریکہ اسٹرٹیجک مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، معاون وزیر خارجہ نے بتایا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان اہم نوعیت کے اعلیٰ سطحی مذاکرات تھے، اور ان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ یہ کئی برس کے وقفے کے بعد ہوئے۔ ان مذاکرات میں زیادہ تر توجہ دو بنیادی امور پر مرکوز رہی، جن میں پہلی چیز معیشت، توانائی اور تجارت سے متعلق معاملات تھے، جب کہ دوسرے حصے میں سیکیورٹی پر بات ہوئی، جس میں افغان جنگ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے معاملات زیر بحث آئے۔
انہوں نے کہا کہ اِن حالیہ اسٹرٹیجک مذاکرات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے، کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے اعلیٰ سطحی مذاکرات تھے، جس میں پاکستان کی طرف سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وفاقی وزیر خواجہ آصف اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سینیئر عہدے داروں نے حصہ لیا، جب کہ امریکی جانب سے وزیر خارجہ جان کیری، وہائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ، توانائی، تجارت اور سیکیورٹی کے سینیئر عہدے دار شریک ہوئے۔
ڈین فیلڈ مین نے اسٹرٹیجک مذاکرات کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ابتداٴ 2010 ءمیں پاکستان اور افغانستان کے نمائندہٴ خصوصی، ہالبرک کے دور میں ہوئی تھی اور پاکستان کی مخصوص ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پانچ ورکنگ گروپ قائم کیے گئے تھے۔ جن میں سے ایک گروپ کا کام توانائی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کرنا ہے ۔ دوسرا گروپ پاکستان کی معاشی ترقی اور تجارت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔
ایک اور ورکنگ گروپ کا تعلق دفاعی تعلقات اور سٹرٹیجک استحکام سے ہے اور ایک گروپ دہشت گردی اور سرحد کے آرپار عسکریت پسندی سے متعلق امور پر کام کرتا ہے۔ یہ گروپ اس وقت بھی کام کرتے رہے جب دونوں ملکوں کے تعلقات بہت ہی نچلی سطح پر چلے گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی اور سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو شدید دھچکہ لگا۔ اور امریکہ اس سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے اور اعتماد کی بحالی کے لیے بہت کوششیں کر رہا ہے۔ ان کوششوں میں نمایاں کامیابی اس وقت ہوئی جب پچھلے سال موسم گرما میں وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں اعلیٰ حکومتی عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں سرتاج عزیز کے ساتھ ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور تعلقات میں پیش رفت پر اتفاق ہوا ہے۔
ڈین فیلڈمین نے اکتوبر میں ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہٴ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اپنے تحفظات دور کرنے اور تعلقات کو مثبت سمت بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی۔
انہوں نے وزیر اعظم کے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے درمیان وزارتی سطح پر اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے، جو بہت ہی تعمیری رہے، اور مستقبل میں یہ سلسلہ جاری رکھنے پر اتقاق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو خطے کا ایک ملک سمجھتا ہے اور اس کی ضروریات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ 2011 ءاور 2012 ءکے برسوں میں بھی جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی جارہی تھی، امریکہ نے معیشت، توانائی، تجارت، تعلیم، رابطہ سڑکوں کی تعمیر اور کئی دوسرے ترقیاتی پروگرام میں اپنی امداد جاری رکھی۔ اور اس دوران جب کہ خود امریکی معیشت دباؤ میں تھی، ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر فراہم کیے۔
توانائی کے شعبے میں امریکہ نے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں 1000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی داخل کی، جو تقریباً ایک کروڑ 50 لاکھ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ امریکہ آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور ہم اسے مزید وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں امریکہ اپنے ’فل برائٹ پروگرام‘ میں پاکستان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ حصہ دے رہا ہے۔ ہم پاکستان میں درمیانے اور چھوٹی سطح کے کاروباروں کی ترقی اور فروغ کے ایک پروگرام پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہاں سڑکوں کی تعمیر اور توسیع کے لیے بھی فنڈز مہیا کیے جارہے ہیں۔ ہم پاکستان کو مستحکم اور اقتصادی لحاظ سے ایک پھلتے پھولتے اور ترقی کرتے ہوئے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر آفریدی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، ڈین فیلڈمین نے کہا کہ امریکہ ان کی سلامتی اور رہائی کا خواہش مند ہے۔ امریکی کانگریس اس سلسلے میں اپنے تحفظات ظاہر کر چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر آفریدی نے دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے۔ لیکن، یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک اختلافی معاملہ ہے۔
ڈین نے کہا کہ اِس کے سوا بھی کچھ امور پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ لیکن، جس طرح اختلافات دو افراد کے درمیان ہوتے ہیں، اس طرح دو ملکوں کے درمیان بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر اختلافات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔
افغانستان سے فوجی انخلاٴ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کو ایک مستحکم، آزاد، خودمختار اور دہشت گردی سے پاک ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ’اِسی لیے، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں 2014 ء کے بعد کچھ فوجی دستے رکھنے کے معاہدے پر جلد دستخط ہوجائیں اور ہم معاہدے پر جلد دستخطوں کی توقع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب افغانستان انتخابی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کے انتخابات شفاف اور قابل بھروسہ ہوں، جس سے افغانستان کو مضبوط اور محفوظ بنانے میں مدد ملے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق ہماری پالیسی کا تعلق ہے، صدر براک اوباما نے پچھلے سال اپنی تقریر میں اس پروگرام کی شفافیت واضح کردی تھی۔ ہم خطے میں امن اور استحکام کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں‘۔
پاک امریکہ اسٹرٹیجک مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، معاون وزیر خارجہ نے بتایا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان اہم نوعیت کے اعلیٰ سطحی مذاکرات تھے، اور ان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ یہ کئی برس کے وقفے کے بعد ہوئے۔ ان مذاکرات میں زیادہ تر توجہ دو بنیادی امور پر مرکوز رہی، جن میں پہلی چیز معیشت، توانائی اور تجارت سے متعلق معاملات تھے، جب کہ دوسرے حصے میں سیکیورٹی پر بات ہوئی، جس میں افغان جنگ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے معاملات زیر بحث آئے۔
انہوں نے کہا کہ اِن حالیہ اسٹرٹیجک مذاکرات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے، کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے اعلیٰ سطحی مذاکرات تھے، جس میں پاکستان کی طرف سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وفاقی وزیر خواجہ آصف اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سینیئر عہدے داروں نے حصہ لیا، جب کہ امریکی جانب سے وزیر خارجہ جان کیری، وہائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ، توانائی، تجارت اور سیکیورٹی کے سینیئر عہدے دار شریک ہوئے۔
ڈین فیلڈ مین نے اسٹرٹیجک مذاکرات کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ابتداٴ 2010 ءمیں پاکستان اور افغانستان کے نمائندہٴ خصوصی، ہالبرک کے دور میں ہوئی تھی اور پاکستان کی مخصوص ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پانچ ورکنگ گروپ قائم کیے گئے تھے۔ جن میں سے ایک گروپ کا کام توانائی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کرنا ہے ۔ دوسرا گروپ پاکستان کی معاشی ترقی اور تجارت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔
ایک اور ورکنگ گروپ کا تعلق دفاعی تعلقات اور سٹرٹیجک استحکام سے ہے اور ایک گروپ دہشت گردی اور سرحد کے آرپار عسکریت پسندی سے متعلق امور پر کام کرتا ہے۔ یہ گروپ اس وقت بھی کام کرتے رہے جب دونوں ملکوں کے تعلقات بہت ہی نچلی سطح پر چلے گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی اور سلالہ چیک پوسٹ کے واقعے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو شدید دھچکہ لگا۔ اور امریکہ اس سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے اور اعتماد کی بحالی کے لیے بہت کوششیں کر رہا ہے۔ ان کوششوں میں نمایاں کامیابی اس وقت ہوئی جب پچھلے سال موسم گرما میں وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں اعلیٰ حکومتی عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں سرتاج عزیز کے ساتھ ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور تعلقات میں پیش رفت پر اتفاق ہوا ہے۔
ڈین فیلڈمین نے اکتوبر میں ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہٴ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اپنے تحفظات دور کرنے اور تعلقات کو مثبت سمت بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی۔
انہوں نے وزیر اعظم کے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے درمیان وزارتی سطح پر اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے، جو بہت ہی تعمیری رہے، اور مستقبل میں یہ سلسلہ جاری رکھنے پر اتقاق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو خطے کا ایک ملک سمجھتا ہے اور اس کی ضروریات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ 2011 ءاور 2012 ءکے برسوں میں بھی جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی جارہی تھی، امریکہ نے معیشت، توانائی، تجارت، تعلیم، رابطہ سڑکوں کی تعمیر اور کئی دوسرے ترقیاتی پروگرام میں اپنی امداد جاری رکھی۔ اور اس دوران جب کہ خود امریکی معیشت دباؤ میں تھی، ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر فراہم کیے۔
توانائی کے شعبے میں امریکہ نے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں 1000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی داخل کی، جو تقریباً ایک کروڑ 50 لاکھ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ امریکہ آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور ہم اسے مزید وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں امریکہ اپنے ’فل برائٹ پروگرام‘ میں پاکستان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ حصہ دے رہا ہے۔ ہم پاکستان میں درمیانے اور چھوٹی سطح کے کاروباروں کی ترقی اور فروغ کے ایک پروگرام پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہاں سڑکوں کی تعمیر اور توسیع کے لیے بھی فنڈز مہیا کیے جارہے ہیں۔ ہم پاکستان کو مستحکم اور اقتصادی لحاظ سے ایک پھلتے پھولتے اور ترقی کرتے ہوئے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر آفریدی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں، ڈین فیلڈمین نے کہا کہ امریکہ ان کی سلامتی اور رہائی کا خواہش مند ہے۔ امریکی کانگریس اس سلسلے میں اپنے تحفظات ظاہر کر چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر آفریدی نے دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے۔ لیکن، یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک اختلافی معاملہ ہے۔
ڈین نے کہا کہ اِس کے سوا بھی کچھ امور پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ لیکن، جس طرح اختلافات دو افراد کے درمیان ہوتے ہیں، اس طرح دو ملکوں کے درمیان بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر اختلافات کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔
افغانستان سے فوجی انخلاٴ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کو ایک مستحکم، آزاد، خودمختار اور دہشت گردی سے پاک ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ’اِسی لیے، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں 2014 ء کے بعد کچھ فوجی دستے رکھنے کے معاہدے پر جلد دستخط ہوجائیں اور ہم معاہدے پر جلد دستخطوں کی توقع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب افغانستان انتخابی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں کے انتخابات شفاف اور قابل بھروسہ ہوں، جس سے افغانستان کو مضبوط اور محفوظ بنانے میں مدد ملے گی‘۔