واشنگٹن —
پاکستان اور امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرپہ پارٹنرشپ، علاقے اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
وزارتی سطح کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی افزائش، تجارت میں فروغ، علاقائی استحکام ؛ اور انسداد دہشت گردی اور دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کےلیے باہمی طور پر طے کردہ اقدامات لینے کے سلسلے میں یکساں مفادات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
پیر کے روز محکمہٴخارجہ میں پاک امریکہ اسٹریٹجک مذاکرات کی ابتدائی نشست ہوئی، جس میں پاکستانی وفد کے قائد اور وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور امریکی وفد کے سربراہ و وزیر خارجہ جان کیری نے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا، ’اسٹریٹجک مکالمے کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا‘ اور ورکنگ گروپس کی طرف سے مشترکہ اہداف پر عمل درآمد کےلیے ’نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طرفین نے مضبوط تعلقات، اور دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار پارٹنرشپ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارتی سطح کے اسٹریٹجک مکالمے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اور مستحکم، محفوظ، اور خوشحال پاکستان اور خطہ، دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق نے آئندہ معاشی اور مالیات سے متعلق ورکنگ گروپس کے ایجنڈے کی حمایت کی۔ اِن گروپوں کا اجلاس اپریل میں واشنگٹن میں ہوگا جہاں پاکستان اور امریکہ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ، معاشی امداد اور علاقائی اتقصادی قربت پر تبالہٴ خیال کریں گے۔
امریکی وزیر خاجہ جان کیری نے واضح کیا کہ امریکہ کے تعاون سے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں 1000میگاواٹ بجلی شامل کی گئی ہے، جس نے پاکستان کے 16 کروڑ 60 لاکھ افراد کو بجلی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس موقعے پر، پاکستان نے اس پروگرام کے ضمن میں ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر امریکی امداد پر شکریہ ادا کیا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ کیری اور پاکستان کے وزیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے پاکستان کے شعبہٴ تعلیم میں سرمایہ کاری کی اہمیت کی نشاندہی کی، تاکہ پاکستان کی نئی نسل کو روزگار کی عالمی منڈی کے لیے تیار کیا جاسکے، اور اس طرح، اُنھیں اپنے ملک اور برادری کے لیے قائدانہ کردار کے قابل بنایا جا سکے۔
دونوں راہنماؤں نے صدر براک اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اکتوبر 2013ء میں ہونے والی ملاقات میں اُن کی طرف سے پاکستانی طلباٴ، اسکالرز اور تحقیق کاروں کے امریکی اداروں میں تحقیق اور تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے عزم کے سلسلے میں بھی تبادلہٴ خیال کیا۔
جان کیری نے القاعدہ کو شکست دینے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی فوج اور عوام کی قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا۔
امریکی وزیر خارجہ نے جوہری تحفظ کے لیے پاکستان کے عزم پر اعتماد کا اظہار کیا اور پاکستان کے ’اسٹریٹجک ٹریڈ کنٹرول‘ کی تعریف کی۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نیوکلیئر سیفٹی اور سکیورٹی کے مسائل کے معاملے میں عالمی برادری کا حامی ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جان کیری اور سرتاج عزیز نے علاقائی استحکام کے لیے پُرامن، مستحکم اور خودمختار افغانستان کی اہمیت کو اجاگر کیا؛ اور ساتھ ہی، افغانستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے تعاون کی اہمیت کی بھی نشاندہی کی۔
دونوں ممالک نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ افغانستان کی قیادت والی امن اور مصالحتی کوششیں تشدد کے خاتمے کا یقینی ذریعہ ہیں اور اس سلسلے میں دونوں راہنماؤں نے افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کی کوششوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔
اس موقعے پر، جان کیری نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مستحکم تعلقات کو دونوں ملکوں کے شہریوں کے لیے ’سودمند‘ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ اور پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور نے کہا کہ اسٹریٹجک مکالمے کے مزید دور منعقد ہونے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی؛ اور طرفین نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی باہمی مفاد اور احترام پر بنیاد رکھنے کی اہمیت سے بھی اتفاق کیا۔
چار سال کے تعطل کے بعد، پاکستان اور امریکہ کے درمیان 'اسٹریٹجک مذاکرات' کا دوبارہ آغاز ہوا ہے، جن کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت شراکت داری کی تفصیلات طے کرنا ہے۔
اسٹریٹجک مذاکرات کا جائزہ لینے کے لیے، ابتدائی اجلاس پیر کی صبح محکمہ ٔخارجہ میں منعقد ہوا، جس سے پاکستانی وفد کے قائد اور وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور امریکی وفد کے سربراہ و وزیر خارجہ جان کیری نے خطاب کیا۔
منگل کے روز سے، اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے ورکنگ گروپس کا باضابطہ اجلاس ہوگا۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل، پانچ ورکنگ گروپس میں سے تین کا اجلاس منعقد ہوچکا ہے، جب کہ دو ورکنگ گروپس کا اجلاس ہونے والا ہے۔
ابتدائی نشست سے اپنے خطاب میں، سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کے لیے تمام اہم اداروں اور ہر سطح پر باہمی اعتماد کو فروغ دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ باہمی اعتماد بحال ہونے کی صورت میں کوئی بھی غیر متوقع واقعہ، حادثہ یا کسی پالیسی اور عمل پر موجود اختلافات دو طرفہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ پائیدار تعاون کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان اور دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنا چھوڑ دے اور پاکستان کے اپنی سلامتی سے متعلق تحفظات کو بھی اہمیت دے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ سوچ عام ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت سے متعلق معاملات پر جتنا دباؤ پاکستان پر ڈالا گیا، پاکستان کے تحفظات اتنی شدت سےبھارتی حکومت تک نہیں پہنچائے گئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے 'اسٹریٹجک مذاکرات' کو "پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کے خاتمے کی کوشش" اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے دو طرفہ عزم کا اظہار" قرار دیا۔
سیکریٹری کیری نے مزید کہا کہ ان مذاکرات کا ایک بڑا مقصد سکیورٹی امور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان زیادہ تجارت اور سرمایہ کاری سے دونوں ملکوں کے لیے ترقی کے دروازے کھلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکہ کا 'فل برائٹ اسکالر شپ پروگرام' دنیا میں سب سے بڑا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان موجود تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔
وزرا سطح کے اس اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، معیشت، انسداد دہشت گردی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور توانائی کے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2010ء میں اسٹریٹجک مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن دو مئی 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی خصوصی فورسز کے خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور بعض دیگر واقعات کے بعد مذاکرات کا یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اسٹریٹجک مذاکرات کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کیا تھا۔
وزارتی سطح کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی افزائش، تجارت میں فروغ، علاقائی استحکام ؛ اور انسداد دہشت گردی اور دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کےلیے باہمی طور پر طے کردہ اقدامات لینے کے سلسلے میں یکساں مفادات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
پیر کے روز محکمہٴخارجہ میں پاک امریکہ اسٹریٹجک مذاکرات کی ابتدائی نشست ہوئی، جس میں پاکستانی وفد کے قائد اور وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور امریکی وفد کے سربراہ و وزیر خارجہ جان کیری نے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا، ’اسٹریٹجک مکالمے کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا‘ اور ورکنگ گروپس کی طرف سے مشترکہ اہداف پر عمل درآمد کےلیے ’نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طرفین نے مضبوط تعلقات، اور دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار پارٹنرشپ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارتی سطح کے اسٹریٹجک مکالمے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اور مستحکم، محفوظ، اور خوشحال پاکستان اور خطہ، دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق نے آئندہ معاشی اور مالیات سے متعلق ورکنگ گروپس کے ایجنڈے کی حمایت کی۔ اِن گروپوں کا اجلاس اپریل میں واشنگٹن میں ہوگا جہاں پاکستان اور امریکہ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ، معاشی امداد اور علاقائی اتقصادی قربت پر تبالہٴ خیال کریں گے۔
امریکی وزیر خاجہ جان کیری نے واضح کیا کہ امریکہ کے تعاون سے پاکستان کے نیشنل گرڈ میں 1000میگاواٹ بجلی شامل کی گئی ہے، جس نے پاکستان کے 16 کروڑ 60 لاکھ افراد کو بجلی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس موقعے پر، پاکستان نے اس پروگرام کے ضمن میں ایک کروڑ 50 لاکھ ڈالر امریکی امداد پر شکریہ ادا کیا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ کیری اور پاکستان کے وزیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے پاکستان کے شعبہٴ تعلیم میں سرمایہ کاری کی اہمیت کی نشاندہی کی، تاکہ پاکستان کی نئی نسل کو روزگار کی عالمی منڈی کے لیے تیار کیا جاسکے، اور اس طرح، اُنھیں اپنے ملک اور برادری کے لیے قائدانہ کردار کے قابل بنایا جا سکے۔
دونوں راہنماؤں نے صدر براک اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اکتوبر 2013ء میں ہونے والی ملاقات میں اُن کی طرف سے پاکستانی طلباٴ، اسکالرز اور تحقیق کاروں کے امریکی اداروں میں تحقیق اور تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرنے کے عزم کے سلسلے میں بھی تبادلہٴ خیال کیا۔
جان کیری نے القاعدہ کو شکست دینے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی فوج اور عوام کی قربانیوں پر خراج تحسین پیش کیا۔
امریکی وزیر خارجہ نے جوہری تحفظ کے لیے پاکستان کے عزم پر اعتماد کا اظہار کیا اور پاکستان کے ’اسٹریٹجک ٹریڈ کنٹرول‘ کی تعریف کی۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نیوکلیئر سیفٹی اور سکیورٹی کے مسائل کے معاملے میں عالمی برادری کا حامی ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جان کیری اور سرتاج عزیز نے علاقائی استحکام کے لیے پُرامن، مستحکم اور خودمختار افغانستان کی اہمیت کو اجاگر کیا؛ اور ساتھ ہی، افغانستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے تعاون کی اہمیت کی بھی نشاندہی کی۔
دونوں ممالک نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ افغانستان کی قیادت والی امن اور مصالحتی کوششیں تشدد کے خاتمے کا یقینی ذریعہ ہیں اور اس سلسلے میں دونوں راہنماؤں نے افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کی کوششوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔
اس موقعے پر، جان کیری نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مستحکم تعلقات کو دونوں ملکوں کے شہریوں کے لیے ’سودمند‘ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ اور پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور نے کہا کہ اسٹریٹجک مکالمے کے مزید دور منعقد ہونے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مزید بہتری آئے گی؛ اور طرفین نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی باہمی مفاد اور احترام پر بنیاد رکھنے کی اہمیت سے بھی اتفاق کیا۔
چار سال کے تعطل کے بعد، پاکستان اور امریکہ کے درمیان 'اسٹریٹجک مذاکرات' کا دوبارہ آغاز ہوا ہے، جن کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدت شراکت داری کی تفصیلات طے کرنا ہے۔
اسٹریٹجک مذاکرات کا جائزہ لینے کے لیے، ابتدائی اجلاس پیر کی صبح محکمہ ٔخارجہ میں منعقد ہوا، جس سے پاکستانی وفد کے قائد اور وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور امریکی وفد کے سربراہ و وزیر خارجہ جان کیری نے خطاب کیا۔
منگل کے روز سے، اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے ورکنگ گروپس کا باضابطہ اجلاس ہوگا۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل، پانچ ورکنگ گروپس میں سے تین کا اجلاس منعقد ہوچکا ہے، جب کہ دو ورکنگ گروپس کا اجلاس ہونے والا ہے۔
ابتدائی نشست سے اپنے خطاب میں، سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کے لیے تمام اہم اداروں اور ہر سطح پر باہمی اعتماد کو فروغ دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ باہمی اعتماد بحال ہونے کی صورت میں کوئی بھی غیر متوقع واقعہ، حادثہ یا کسی پالیسی اور عمل پر موجود اختلافات دو طرفہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ پائیدار تعاون کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان اور دہشت گردی کے تناظر میں دیکھنا چھوڑ دے اور پاکستان کے اپنی سلامتی سے متعلق تحفظات کو بھی اہمیت دے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ سوچ عام ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت سے متعلق معاملات پر جتنا دباؤ پاکستان پر ڈالا گیا، پاکستان کے تحفظات اتنی شدت سےبھارتی حکومت تک نہیں پہنچائے گئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے 'اسٹریٹجک مذاکرات' کو "پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کے خاتمے کی کوشش" اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے دو طرفہ عزم کا اظہار" قرار دیا۔
سیکریٹری کیری نے مزید کہا کہ ان مذاکرات کا ایک بڑا مقصد سکیورٹی امور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان زیادہ تجارت اور سرمایہ کاری سے دونوں ملکوں کے لیے ترقی کے دروازے کھلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکہ کا 'فل برائٹ اسکالر شپ پروگرام' دنیا میں سب سے بڑا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان موجود تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔
وزرا سطح کے اس اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، معیشت، انسداد دہشت گردی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور توانائی کے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2010ء میں اسٹریٹجک مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن دو مئی 2011ء میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی خصوصی فورسز کے خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور بعض دیگر واقعات کے بعد مذاکرات کا یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے موقع پر دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اسٹریٹجک مذاکرات کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کیا تھا۔