کانگریس مین کیتھ ایلی سن اس وقت ایک بار پھر عالمی شہ سرخیوں کا موضوع بن گئے جب انہوں نے اپنے عہدے کا حلف روایت سے ہٹ کر قرآن پاک پر اٹھایا۔
افغان جنگ کا ذکر کرتے ہوئے، جم مورین نے کہا کہ ’جنگ شروع ہونے سے اب تک ہم وہاں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ لیکن وہاں ہمارے لیے شکریے کا ایک لفظ تک نہیں ہے‘
’پاک امریکہ اسٹریٹجک مذاکرات میں زیادہ تر توجہ معیشت، توانائی اور تجارت سے متعلق معاملات پر رہی؛ جب کہ سیکیورٹی پر بات ہوئی، جس میں افغان جنگ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے معاملات زیر بحث آئے‘
کنوینشن کےسماجی و سیاسی فورم کا بنیادی موضوع ’مذہبی عدم رواداری‘ ہے، تاکہ لوگوں میں اس مسئلے کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو: ڈاکٹر ظفر حمید
صدر اوباما کا دوبارہ منتخب ہونا , اگلےسال امریکہ کی افغانستان سے واپسی اور ایک بلکل نئی نیشنل سیکیورٹی ٹیم کا انتخاب پاکستان اور اس خطے پر اہم اثرات مرتب کرے گا
مسائل تو ہر جگہ ہی ہیں اور کافی حد تک ایک جیسے ہی ہیں۔ افرنگ کا ہر، ذرہ، فردوس کے مانند تو ہو سکتا ہے لیکن قتل و غارت گری، کرپشن، مذہبی انتہا پسندی، سیاسی تعطل اور دیگر کئی شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک اپنے ترقی پذیر اور غریب بھائی بہنوں سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں۔
کیا قوم کا اجتماعی شعور ان نتائج کے لیے تیار ہے؟ کیا چند گمراہ لوگوں کے ہاتھوں پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کے خواب، خواہشات، مستقبل اور ارمان یرغمال ہوچکے ہیں؟
اسکی طبیعت میں ایک ضد سی آگئی۔ اپنے فیصلوں پر اڑ جانا اسکا معمول تھا اور اپنے نظریات میں معمولی سی لچک اسکے لیے ناقابل غور تھی۔ اسکے دوستوں نے کئی موقعوں پر اسے علاج کے لیے امریکہ آنے کو کہا لیکن اس نے ہمیشہ سختی سے منع کردیا۔
اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ معیشت خود اپنے ہی ہاتھوں خودکشی کرلے گی اور نہ یہ آشیانہ اتنا ناپائیدار ہے۔
خانہ جنگی کے اختتام اور غلامی کے خلاف آئینی ترمیم منظور کروانے کے کچھ ہی دن بعد لنکن ایک انتہاپسند کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ لیکن, امریکی عوام نے انکے سفر کو جاری رکھا، اقلیتوں کو آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہوتے رہے
دوست ممالک کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے سے کھل کر بات کرسکیں
’بھارت کے پاس مذاکرات کے علاوہ تمام راستے ختم ہو چکے ہیں‘