ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ منہ میں زہر پیدا کرنے کے لیے جو جینیاتی بنیاد ضروری ہے، وہ رینگنے والے جانوروں کے ساتھ ساتھ ممالیہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی ادارے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائینسز (PNAS) میں چھپنے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سانپوں میں زہر کے غدود اور ممالیہ جانوروں میں لعاب کے غدود میں مالیکیولر تعلق پایا جاتا ہے۔
یہ تحقیق جاپان کی اوکیناوا انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی گریجویٹ یونیورسٹی کے طالب علم اگنیش باراؤ اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے الیگزینڈر میخیو نے کی۔
اوکیناوا انسٹیٹیوٹ نے اپنی پریس ریلیز میں ان نتائج کا اعلان کیا۔ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالب علم اگنیش باراؤ نے لکھا کہ ’’زہر پروٹینز کا آمیزہ ہوتے ہیں جنہیں جانور اپنے شکار کو بے جان کرنے کے لیے یا اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اگنیش کے مطابق یہ بات حیران کن ہے کہ جانوروں کی بہت سی اقسام میں زہر پایا جاتا ہے جن میں جیلی فش، مکوڑے، بچھو اور کچھ ممالیہ جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے اب تک منہ سے زہر نکالنے کے نظام پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔
یونیورسٹی کی پریس ریلیز کے مطابق سائینس دان ابھی تک منہ میں زہر کی ابتدا پر تحقیق کر رہے ہیں۔ نئی تحقیق میں منہ میں زہر کی ابتدا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یونیورسٹی کے مطابق محققین نے تین ہزار ایسی جینز کی شناخت کی جو ایک دوسرے کے تعاون سے زہر بنانے کے لیے اس قدر زیادہ تعداد میں پروٹین پیدا کرنے کے باوجود خلیوں کو دباؤ سے بچاتی ہیں، اور ان پروٹینز میں تغیرات کے کام بھی آتی ہیں۔
محققین نے ان جینز کی تلاش میں انسانوں سمیت دوسرے جانوروں کی جینوم کو دیکھا جن میں کتے، چمپینزی اور انسان بھی شامل تھے اور انہیں پتہ لگا کہ ان میں بھی ایسی ہی جینز موجود ہیں۔
سائنسدانوں نے جب ان جانوروں کے لعاب دہن کے غدود کو جانچا تو انہیں معلوم ہوا کہ یہاں بھی ویسی ہی جینز اسی طرح اپنا عمل جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس بات سے یہ سامنے آیا کہ ممالیہ جانوروں میں لعاب کے غدود اور سانپوں میں زہر کے غدود میں ایک تاریخی تعلق پایا جاتا ہے اور یہ تب سے موجود ہے جب سے ارتقائی عمل کے دوران ان دونوں اقسام کے جاندار کروڑوں برس پہلے ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔
اوکیناوا یونیورسٹی کے پریس ریلیز میں یونیورسٹی کے نمائندے ڈینی ایلن بی سے بات کرتے ہوئے اگنیش کہتے ہیں کہ 1980 کے عشرے میں کچھ نر چوہوں پر تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا تھا کہ ان کے لعاب دہن میں ایک طرح کا زہر پایا جاتا ہے جِسے اگر دوسرے چوہوں میں داخل کیا جائے تو وہ ان کے لیے انتہائی مضر ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اگر خاص ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صرف ایسے زہریلے چوہے تولیدی اعتبار سے نشو نما پاتے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ چند ہزار برس بعد صرف زہریلے چوہے ہی موجود رہیں گے۔
کیا انسان بھی کبھی زہریلے ہو سکتے ہیں؟ اس کے متعلق اگنیش باراؤ کہتے ہیں، اگرچہ اس کا امکان بہت کم ہے، لیکن اگر وہ خاص ماحول کبھی پیدا ہوگیا تو انسان بھی زہریلے بن سکتے ہیں۔
بقول ان کے یہ حقیقت ’’زہریلے‘‘ شخص کی تعریف کو ایک نیا معنی دیتی ہے۔