سابق وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا کی جانب سے نئی سیاسی جماعت کے اعلان کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ سمجھا جا رہا ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ صوبے کی سیاست اب ایک نیا رُخ اختیا کر رہی ہے جب کہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ عمران خان کا ووٹ بینک اب بھی برقرار ہے۔
زیادہ تر تجزیہ کار اور سیاسی کارکن متفق ہیں کہ پرویز خٹک سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور ان کے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور خاندانوں سے گہرے روابط ہیں۔
پرویز خٹک نے چند روز قبل اپنے آبائی شہر نوشہرہ میں پاکستان تحریکِ انصاف 'پارلیمینٹرینز' کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تھا۔
نئی جماعت میں سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان سمیت دیگر رہنما بھی شامل ہو گئے تھے۔
خیبرپختونخوا کی سیاست میں کون کتنا اہم ہے؟
عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (ف)، قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جماعتِ اسلامی اور قومی وطن پارٹی کا شمار خیبر پختونخوا کی با اثر سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے۔
تاہم ان جماعتوں کے علاوہ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے بااثر خاندانوں کے الیکٹیبلز بھی یہاں کی سیاست میں ہمیشہ سے آزاد اور انفرادی حیثیت میں سرگرم رہتے ہیں اور ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی جماعت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز کے قیام سے قبل خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں اثرو نفوذ رکھنے والا سیف اللہ خاندان پہلے ہی سے الیکشن میں ایک آزاد گروپ کی تشکیل کے لیے سرگرداں ہے۔
ماہرین کے مطابق پرویز خٹک کے سیف اللہ خاندان کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔ نئی جماعت کی تشکیل کے فوراً بعد پرویز خٹک نے سابق صوبائی وزیر ہشام انعام اللہ خان کے ذریعے سیف اللہ خاندان کی حمایت کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔
سیف اللہ خاندان سابق وفاقی وزیر انور سیف اللہ خان کی وساطت سے پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک ہے مگر کہا جاتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے عوامی نیشنل پارٹی کی جانب جھکاؤ سے سیف اللہ خاندان بظاہر خفا ہے۔
پرویز خٹک عمران خان کی 'مقبولیت' کا مقابلہ کر سکیں گے؟
نئی سیاسی جماعت کے قیام کے اعلان پر پرویز خٹک نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہوں نے جان بوجھ کر الیکشن کے تین سے چار مواقع گنوا دیے۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ عمران خان کے انقلاب اور ہٹلر کی نازی فورس کی سیاست کا چند لوگوں کو علم تھا، وہ کور کمیٹی اور اہم قائدین کو کبھی اعتماد میں نہیں لیتے تھے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے پرویز خٹک کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
'پرویز خٹک کا سیاسی قد کاٹھ عمران خان کی وجہ سے ہے'
پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے ترجمان اور سابق وزیر اعلی محمود خان کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کا سیاسی قد کاٹھ صرف عمران خان کی وجہ سے ہی ہے۔
پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شاہد حمید کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کا شمار صوبے کے مقبول سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی اچھے روابط ہیں جو مستقبل کی سیاست میں اہم ہو سکتے ہیں۔
بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت صوبے میں اب بھی برقرار ہے۔ لہذٰا پرویز خٹک کے ذریعے عمران خان کو سیاست سے دُور رکھنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ نئی سیاسی جماعت سے عمران خان کو نقصان کے بجائے فائدہ ہو گا کیوں کہ آئندہ انتخابات میں عمران خان کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا۔
شاہد حمید کے بقول فی الوقت خیبرپختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے آ رہی ہیں۔
اُن کے بقول ان دونوں سیاسی جماعتوں سے لوگوں کا ٹوٹنا مشکل ہے۔ لہذٰا پرویز خٹک پی ٹی آئی میں ہی دراڑ ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز میں شامل افراد کے بارے میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ ان میں کئی ایک ایسے تھے جن کو تحریک انصاف سے نکالا گیا تھا اور کئی ایک کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں کہ پرویز خٹک کے مولانا فضل الرحمٰن کی جمیعت، پاکستان پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور با اثر سیف اللہ خاندان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، بیرسٹر سیف نے کہا کہ سیاست میں ہر پارٹی کے اپنے مفادات اور اہداف ہوتے ہیں اور کوئی بھی عمر بھر کی سیاست اور جدوجہد کسی بھی طور پر پرویز خٹک کے لیے قربان نہیں کر سکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نئی پارٹی کی رونمائی کے پہلے دن ایک درجن سے زائد افراد نے پرویز خٹک کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا باقی لوگوں میں بھی اکثریت اب بھی عمران خان کے ساتھ رابطے میں ہے۔
پرویز خٹک تحریک انصاف کی حکومت میں 2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور بعدازاں عمران خان کی حکومت میں وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
انہیں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے قریبی اور با اعتماد رفقا کار میں سرِ فہرست سمجھا جاتا تھا۔
لیکن نو مئی کے واقعات کے بعد ایک مختصر پریس کانفرنس میں اُنہوں نے پی ٹی آئی کی صوبائی صدارت چھوڑ دی تھی۔
بعدازاں نئی سیاسی جماعت کے لیے پی ٹی آئی کے لوگوں کو توڑنے کے الزام میں پارٹی نے اُنہیں شوکاز نوٹس بھیجا تھا۔اور بروقت جواب نہ دینے پر اُن کی بنیادی رُکنیت ختم کر دی گئی تھی۔