رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: 'ہم نے دہلی میں کبھی اتنا پانی نہیں دیکھا'


اہالیانِ دہلی کے ساتھ دریائے جمنا کی طغیانی آج بھی آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ پانی نے 10 جولائی کو خطرے کے نشان کو جو عبور کیا تو آج تک وہ نیچے نہیں اترا۔ ہاں اگر کبھی دو چار انچ اترا بھی تو چند گھنٹوں کے بعد پھر چڑھ گیا۔

ہم تقریباً 40 برس سے دہلی میں مقیم ہیں لیکن ہم نے ایسی سیلابی کیفیت کبھی دیکھی نہ سنی۔ یہاں کے بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ انہوں نے بھی کبھی دہلی میں اتنا پانی نہیں دیکھا۔ حالاں کہ پہلے زیادہ بارشیں ہوتی تھیں، ایک ایک ہفتے تک نہ تو بوند ٹوٹتی تھی نہ سورج دکھائی دیتا تھا۔

جب 10 جولائی کو پہلی بار جمنا کی سطحِ میں اضافہ ہوا اور پانی آس پاس کے علاقوں میں پھیلنے لگا تو یہ اندیشہ نہیں تھا کہ وہ شہر کو مفلوج کرکے رکھ دے گا۔ گوکہ حکومت نے متاثرہ علاقوں میں آباد شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہو جانے کا مشورہ دیا تھا لیکن اس کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ پانی رفتہ رفتہ سیلاب کی شکل اختیار کر لے گا۔

دہلی میں سیلاب آیا اور ایسا آیا کہ دریائے جمنا کے آس پاس کے نشیبی علاقے تو غرقاب ہوئے ہی، اونچائی پر موجود آبادیوں کی بھی سانسیں پھولنے لگیں۔ جن علاقوں میں سیلاب کا پانی پہنچنے میں ناکام رہا وہاں سیوریج لائنوں سے گندا پانی ابلنے لگا۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نشیبی علاقوں کے چھ اضلاع کے 26 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکال کر ان کے رشتے داروں کے گھر پہنچا دیا گیا۔

دریائے جمنا میں خطرے کا نشان 205.33 میٹر پر ہے۔ مگر 13 جولائی کی شب پانی خطرے کے نشان سے اوپر 208.48 میٹر تک پہنچ گیا تھا۔ لہٰذا شہر میں جہاں پہلے گاڑیاں دوڑتی تھیں اب کشتیاں چلنے لگیں۔ پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے کئی افراد کی جانیں بھی چلی گئیں۔

اُس وقت مزید ہیجانی کیفیت پیدا ہو گئی جب یہ خبر آئی کہ دریائے جمنا تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے ہم آغوش ہو گیا ہے۔ قلعہ کے سامنے وسیع سبزہ زار پر بھی پانی نے قبضہ جما لیا۔ لاہوری دروازہ سمیت دیگر دروازوں سے پانی اندر تک پہنچ گیا۔ گویا جمنا کے پانی نے لال قلعے کے اندر اور باہر سے محاصرہ کر لیا۔

شہر کے باشندے کہتے ہیں کہ شکر ہے دہلی میں میٹرو ٹرین کا نظام ہے۔ لہٰذا جن علاقوں میں ایلیویٹڈ لائنیں ہیں وہاں میٹرو نے بڑی حد تک نقل و حمل کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔

چند دنوں کے اندر شمال مشرقی دہلی کی درجنوں آبادیاں زیر آب آگئیں اور پھر دہلی حکومت کے دفتر سکریٹریٹ اور وزیرِاعلیٰ اروند کیجری وال کے گھر میں بھی پانی داخل ہو گیا۔

اس وقت تو لوگوں کی تشویش بہت زیادہ بڑھ گئی جب معروف مارکیٹ کناٹ پلیس میں پانی بھر گیا اور پانی ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے دروازے تک پہنچ گیا۔ شہرت یافتہ گاندھی سمادھی اور شانتی ون کا علاقہ، جہاں کئی سابق وزرائے اعظم کی سمادھیاں ہیں، کئی دنوں تک زیر آب رہا۔

اس سیلابی صورت حال سے صرف زندہ انسان ہی نہیں بلکہ مردے بھی مصیبت میں پڑ گئے۔ دہلی میں 20 سے زائد شمشان گھاٹ ہیں جن میں نگم بودھ گھاٹ زیادہ مشہور ہے۔ بڑی سیاسی شخصیات کی آخری رسومات وہیں ادا کی جاتی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے نگم بودھ گھاٹ سمیت کئی شمشان گھاٹوں کو کئی دنوں تک بند کرنا پڑا۔

کشمیری گیٹ کے پاس واقع بین الریاستی بس اڈہ کئی دنوں تک بند رہا۔ وہاں سے مختلف ریاستوں کے لیے یومیہ 1200 سے زائد بسیں چلتی ہیں۔ اب جا کر وہاں نقل و حمل کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن پاور اسٹیشن بند ہونے کی وجہ سے بجلی کی سپلائی ٹھپ ہے۔

سیلاب کی وجہ سے کئی علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت ہو گئی۔ وزیر آباد کا پمپ ہاؤس کئی دنوں تک متاثر رہا۔ اس پمپ ہاؤس سے شمال مشرقی دہلی کے وزیر آباد اور چندراول جب کہ جنوبی دہلی کے اوکھلا واٹر ٹریٹ منٹ پلانٹ کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ پمپ ہاؤس مجموعی طور پر شہر کی 25 فی صد ضرورت پوری کرتا ہے۔

لیکن اب ان تینوں پلانٹوں کو فعال کر دیا گیا ہے۔ تاہم پانی کی سپلائی کرنے والے محکمے ’دہلی جل بورڈ‘ کے اہلکاروں کے مطابق ان علاقوں میں یومیہ 10سے 12 ملین گیلن پانی کی قلت ہے۔

حکومت کے ریکارڈ کے مطابق اس سے قبل 1978 میں ایسا سیلاب آیا تھا۔ اس وقت بھی متعدد علاقے زیر آب آگئے تھے۔ لیکن جو برا حال اب ہوا ہے ویسا اس وقت نہیں ہوا تھا۔

سیلاب کی وجوہات

جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دہلی میں اس سیلابی کیفیت کی وجوہات کیا ہیں تو کئی حقائق سامنے آئے۔ دہلی حکومت کا الزام ہے کہ اس کے لیے مرکزی اور ہریانہ کی ریاستی حکومت ذمہ دار ہیں۔ ان کے مطابق ہریانہ کے ہتھنی کنڈ باندھ سے بہت زیادہ پانی دہلی کی طرف چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ لوگ پریشان ہوں اور دہلی حکومت کی بدنامی ہو۔

واضح رہے کہ دہلی میں اختیارات کی تقسیم کے سلسلے میں دہلی حکومت اور لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کے درمیان جو کہ مرکزی حکومت کے نمائندے ہیں، رسہ کشی چل رہی ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ دہلی حکومت کا الزام ہے کہ ایل جی کے وفادار سرکاری اہلکاروں نے اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتی۔

ہتھنی کنڈ باندھ ہریانہ میں جمنا نگر اور اترپردیش میں سہارن پور کی سرحد پر واقع ہے۔ اس میں جب پانی کی زیادتی ہوتی ہے تو تین سمتوں ایسٹرن جمنا کینال، ویسٹرن جمنا کینال اور جمنا ریور کی جانب پانی چھوڑا جاتا ہے۔

عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ ہریانہ حکومت نے صرف دہلی کی جانب پانی چھوڑا۔عام طور پریہاں سے یومیہ 352 کیوسک پانی فی گھنٹہ جاری کیا جاتا ہے لیکن نو جولائی کو چار بجے وہاں سے ایک لاکھ گیارہ ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا۔ ہریانہ حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ہماچل پردیش میں بہت زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے ہتھنی کنڈ باندھ میں معمول سے کہیں زیادہ پانی آگیا تھا۔ اگر وہاں سے پانی ریلیز نہ کیا جاتا تو درجنوں مواضعات غرقاب ہو جاتے۔

اس کی دوسری وجہ شمالی بھارت میں معمول کے برعکس بہت زیادہ بارش کا ہو جانا ہے۔ دہلی کی وزیر آتشی سنگھ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے دہلی میں 24 گھنٹے کے اندر پورے سیزن کی 25 فی صد بارش ہو ئی۔چونکہ دہلی میں اتنی بارش نہیں ہوتی لہٰذا کوئی تدارکی اقدام نہیں کیا گیا۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ تعمیرات اور آبادیوں کی وسعت نے بھی صورتِ حال خراب کی ہے۔ پہلے جب ہریانہ سے پانی چھوڑا جاتا تھا تو وہ کافی بڑے علاقے سے ہو کر گزرتا تھا لیکن اب اس کے بہنے کی جگہیں تنگ ہو گئی ہیں اس لیے سیلابی پانی بہت جلد دہلی پہنچ گیا تھا۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ماحولیات سے چھیڑ چھاڑ اور دریا کے راستے میں انسانوں کا آباد ہو جانا بھی ایک وجہ ہے۔ جب دریا میں طغیانی آئی تو اس نے اپنے پرانے راستے تلاش کرنے شروع کر دیے۔

تاریخی تناظر

جہاں تک لال قلعہ کی فصیل سے پانی کے ٹکرانے کی بات ہے تو یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ دہلی کے آثار پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر شریف حسین قاسمی کہتے ہیں کہ جب لال قلعہ تعمیر ہوا تو دریائے جمنا کا پانی اس کی فصیل سے لگ کر بہتا تھا۔ پانی اپنا نشان چھوڑتا ہے اور آج بھی لال قلعہ کی مشرقی فصیل پر پانی کا نشان دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن پہلے طغیانی کو روکنے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ لال قلعہ اور کشمیری گیٹ کے درمیان قلعہ سلیم گڑھ کے پاس بغیر چھتوں والی ایک تکونی عمارت ہے جو پانی کے زور کو روکنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ دہلی میں کم از کم پندرہ باولیاں تھیں جن میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ ان باولیوں کو زینےدار کنواں کہہ سکتے ہیں۔ ان میں اکٹھا کیا جانے والا پانی پینے اور غسل کے علاوہ بھی کئی کاموں میں استعمال ہوتا تھا۔

صوفی بزرگ نظام الدین اولیا کی درگاہ کے احاطے میں اب بھی ایک زندہ باولی موجود ہے۔ جب کہ بارہ کھمبا روڈ باولی، اگرسین کی باولی، عرب کی سرائے کی باولی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مہرولی کی باولی کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

سیلابی پانی نے صرف لال قلعہ کی فصیل کو ہی نہیں چوما بلکہ وہ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک آگرہ کے تاج محل کی فصیل تک بھی پہنچ گیا تھا۔ البتہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

شریف حسین قاسمی کہتے ہیں کہ مغل حکمرانوں نے دریاؤں کے ساحل پر عمارتیں تعمیر کی تھیں۔ دہلی میں شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ کا تعمیر کردہ قلعہ سلیم گڑھ، لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ اور تغلق آباد کا قلعہ جمنا کے ساحل پر تعمیر ہوئے تھے۔ جمنا کے پانی سے لال قلعہ میں فوارے چلتے تھے، چاندنی چوک کی طرف نہر نکالی گئی تھی۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلے دہلی کے ہر محلے اور ہر مسجد میں کنواں ہوتا تھا۔ لیکن اب کنوؤں کی ضرورت نہیں رہی۔ ترقیات زمانہ نے بہت سی سہولتیں پیدا کر دیں لیکن ان سہولتوں کے بطن سے بہت سے مسائل نے بھی جنم لے لیا۔ جن میں ایک مسئلہ بارش کے پانی کی نکاسی کا بھی ہے۔

محکمۂ آثار قدیمہ کے مطابق یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل 1978 اور 2010 میں بھی تاج محل کی فصیل تک پانی آگیا تھا۔ تاج محل میں کنزرویٹیو اسسٹنٹ پرنس واجپئی کا کہنا ہے کہ 1978 میں پانی اس کے تہہ خانے کے کمروں میں بھی پہنچ گیا تھا۔

ان کے مطابق اگر پانی فصیل تک پہنچ جائے تب بھی عمارت کے لیے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ایک تو وہ بہت اونچائی پر تعمیر کی گئی ہے اور عمارت اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ اس کو پانی سے نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

ماہرین کہتے ہیں دہلی میں جمع ہونے والے پانی کو نکلنے یا خشک ہونے میں کم از کم تین چار ماہ لگ جائیں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG