افغانستان میں دو مختلف واقعات میں 17 افغان سیکیورٹی اہلکار ہو گئے ہیں۔ صوبہ ہلمند اور زابل میں سیکیورٹی اہلکاروں کو حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔
ہلمند کے صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب بارودی مواد سے بھری ہوئی گاڑی سے ضلع گرشک میں سیکیورٹی فورسز کے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ حملے میں 10 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
ہلمند کے گورنر کے ترجمان عمر زواک نے سیکیورٹی بیس پر حملے کی تصدیق کی۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید کسی بھی قسم کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق سیکیورٹی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ گرشک میں ہونے والے کار بم حملے میں 10 افراد ہلاک جب کہ تین زخمی ہوئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام افراد سیکیورٹی اہلکار تھے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ہلاک ہونے والوں میں کوئی اعلیٰ افسر شامل تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی ہلمند میں گرشک میں ایک کار بم حملے میں نو سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
دوسری جانب صوبہ زابل میں کابل قندھار ہائی وے پر ایک چوکی پر ہونے والے حملے میں سات پولیس اہلکار مارے گئے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق زابل میں شیر صفا ضلعے میں بدھ کی صبح پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔
حملے کے حوالے سے صوبائی حکومت یا مقامی حکام نے کسی بھی قسم کا بیان جاری نہیں کیا۔
گزشتہ روز صوبہ لغمان کے گورنر رحمت اللہ یارمل کے قافلے پر کار بم حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک جب کہ 40 زخمی ہو گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں گورنر کے چار ذاتی محافظ بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ فوری طور پر ان حملوں کی ذمہ داری کسی بھی عسکری گروہ نے قبول نہیں کی۔ البتہ حکومت حالیہ دنوں میں ہونے والے حملوں کا الزام طالبان پر عائد کرتی رہی ہے۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان ایک طرف تو دوحہ میں کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کر رہے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ اپنے حملوں میں تیزی لے آئے ہیں۔ طالبان یہ الزام مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کے آغاز کے بعد سے ان کے حملوں میں کمی آئی ہے۔
امن مذاکرات کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ دوحہ میں افغانستان اور طالبان کی مذاکراتی ٹیمیں قواعد و ضوابط کے دو نکات پر بدستور اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
افغان حکومت کی ٹیم کی اولین ترجیح جنگ بندی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان شاید جامع جنگ بندی پر راضی نہ ہوں کیوں کہ ان کے حملہ کرنے کی اہلیت ہی مذاکرات کی میز پر ان کی طاقت ہے۔
طالبان چاہتے ہیں کہ تمام معاملات کو سنی حنفی فقہ کے مطابق حل کیا جائے۔ تاہم افغان حکومت چاہتی ہے کہ ایک اعتدال پسندانہ طریقۂ کار اختیار کیا جائے جو تمام اسلامی گروپس کے لیے قابلِ قبول ہو کیوں ملک میں دیگر فقوں کو ماننے والے لوگ بھی آباد ہیں۔