|
"میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس قدر افسوس ناک ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گھریلو اور معاشرتی پریشر الگ سے ہے کہ بے قصور ہونے کے باوجود یہاں لوگ متاثرہ لڑکی کو ہی باتیں سناتے ہیں اور اسے تماشا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے جو قدم اٹھایا وہ اگرچہ آسان تو نہیں لیکن کسی لڑکی کی عزت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔"
یہ کہنا ہے پنجاب کے شہر فیصل آباد کی جی سی یونیورسٹی میں چوتھے سمسٹر کی ایک طالبہ فرضی نام (ر) کا جن کے ساتھ حال ہی میں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا ہے جس پر قانونی کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔ تاہم (ر) مسلسل ذہنی اذیت سے گزر رہی ہیں۔
فیصل آباد کے ایک نجی گرلز ہوسٹل میں یونیورسٹی کی طالبہ کی خفیہ طور پر واش روم سے ویڈیو بنانے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس پر پولیس نے ہاسٹل کی خاتون انچارج اور اس کے بھائی کو حراست میں لے لیا ہے۔ ملزم عمر پر الزام ہے کہ اس نے واش روم میں نہاتے ہوئے طالبہ کی اپنے موبائل فون پر ویڈیو بنائی۔
تھانہ ویمن فیصل آباد میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 354، 509، 292 اور 34 ت پ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس نے ملزم عمر کے قبضے سے موبائل فون برآمد کر کے اسے فرانزک آڈٹ کے لیے پنجاب فرانزک لیب لاہور بھیج دیا ہے۔
پولیس نے دونوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا جس پر عدالت نے ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ اور اس کے بھائی ملزم عمر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔
ہاسٹل انچارج کے بھائی نے میری نہاتے ہوئے ویڈیو بنائی: ایف آئی ار میں الزام
تھانہ ویمن فیصل آباد میں درج ہونے والا یہ مقدمہ جی سی یونیورسٹی کی فورتھ سمسٹر کی طالبہ ( ر) کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جو کہ ضلع بھکر کی رہائشی ہیں اور یہاں جی سی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔
ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا کہ ملزم عمر نے ہاسٹل انچارج بہن کے ایما پر غیر اخلاقی ویڈیو بنائی۔
"میں اپنے ہاسٹل کے واش روم میں نہا رہی تھی عمر نامی لڑکا ساتھ والے واش روم کے سوراخ سے میری ویڈیو بناتا رہا۔ سوراخ میں سیاہ کور والا موبائل میں نے خود دیکھا تھا جس سے وہ میری ویڈیو بنا رہا تھا، میں واش روم سے فوری طورپر باہر آئی اور شور مچایا۔"
مدعی مقدمہ کے مطابق جب ملزم عمر کی بہن ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا تو اس نے بھی الٹا مجھے برا بھلا کہا اور میری بات کا یقین نہ کیا۔ یوں ملزم عمر نے اپنی بہن کے ایما پر ویڈیو بنا کر مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا ہے۔
ابتدائی تفتیش میں ملزم پر ویڈیو بنانے کا الزام ثابت ہو گیا، تفتیشی آفیسر
تھانہ ویمن فیصل آباد کی ایس ایچ او انسپکٹر مدیحہ ارشاد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ہاسٹل جا کر دونوں واش روم چیک کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں قیام پذیر طالبات سے بھی بات چیت کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہاسٹل انچارج نے اپنے بھائی 27 سالہ عمر کو کاموں کے لیے ہاسٹل آنے کی اجازت دے رکھی تھی اور وہ یہاں باقاعدگی سے آتا جاتا رہتا تھا۔
"ہاسٹل میں 20 طالبات قیام پذیر ہیں جن کے لیے دو واش رومز ہیں، دونوں واش رومز کے درمیان دیوار ہے۔ ایک واش روم کا دروازہ گیٹ کے اندر اور دوسرے کا دروازہ گیٹ کے باہر کھلتا ہے۔ اصولی طور پر کسی مرد کو طالبات کے زیر استعمال واش روم کو استعمال کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ "
انسپکٹر مدیحہ ارشاد کہتی ہیں کہ اس ہاسٹل کے بارے میں انہیں اگرچہ اس نوعیت کی پہلی شکایت موصول ہوئی ہے۔ لیکن ان کی ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم عمر قصور وار ہے جس نے ویڈیو بنائی لیکن طالبہ کی طرف سے شور مچانے اور دیگر طالبات کے احتجاج پر اس نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویڈیو کلپ فوری طور پر ڈیلیٹ کر دیا۔
"ملزم کے موبائل کو پنجاب فرانزک لیب لاہور بھجوادیا گیا ہے جہاں سے اس کا فرانزک آڈٹ ہو گا اور ملزم کی طرف سے موبائل کلپ بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں حتمی رپورٹ آ جائے گی جس کی بنیاد پر ملزم کا چالان مرتب کر کے مجاز عدالت میں پیش کر دیا جائے گا جہاں مقدمہ چلے گا۔
وضو کرنے کے لیے واش روم گیا تھا: ملزم کا ابتدائی بیان
تھانہ ویمن فیصل آباد میں ملزم بہن بھائی کے بیانات بھی قلم بند کر لیے گئے ہیں۔
زیرِ حراست ملزم عمر نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام کی تردید کی اور پولیس کو بتایا کہ وہ تو وضو کرنے کے لیے واش روم گیا تھا۔
ملزم کا کہنا تھا کہ اسے نہیں علم تھا کہ ساتھ والے واش روم میں کوئی طالبہ نہا رہی ہے، اس نے جب اپنا ہاتھ اوپر کیا تو اس کے ہاتھ میں موبائل فون تھا جس وجہ سے طالبہ یہ سمجھی کہ شاید میں اس کی ویڈیو بنا رہا ہوں۔
ہاسٹل انچارج ہنزہ سلطانہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ کئی برسوں سے اپنا ہاسٹل چلا رہی ہے اور کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ بھائی کو ہاسٹل کے ضروری کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ خاتون کہتی ہیں کہ انہیں مقدمے میں ناجائز طور پر ملوث کیا گیا ہے۔
جرم ثابت کرنا مشکل ہے: قانونی ماہرین
سائبر کرائم قوانین کے ماہر شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس نوعیت کے مقدمے میں ملزم کو آسانی سے ریلیف مل جاتا ہے اور مدعی کے لیے جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں تعزیرات پاکستان کی جو دفعات لگائی گئی ہیں ملکی قانون میں ان کی سزائیں کم ہیں۔
"ایف آئی ار میں چار دفعات ہیں، زیرِ دفعہ 509 عوامی مقام پر جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق ہے جس کی سزا تین سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ دفعہ 354 کسی خاتون کے جسمانی اعضا سے چھیڑ خانی کرنے سے متعلق ہے جس کی سزا دو سال قید یا جرمانہ ہے۔
دفعہ 292 غیراخلاقی ویڈیو بنانے پر لگائی جاتی ہے جس کی سزا صرف تین ماہ قید ہے جب کہ دفعہ 34 کسی جرم کے ساتھ ملی بھگت کرنے سے متعلق ہے یعنی اگر جرم کرنے والے ملزم عمر کو سزا ہوتی ہے تو اس کے ساتھ شریک ملزم اس کی بہن کو بھی وہی سزا ہو سکتی ہے۔"
شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام وقوعے کا چشم دید گواہ مانگتا ہے اس مقدمے میں گواہ ہی موجود نہیں۔ ہمارا عدالتی نظام ابھی تک 1860 کے ایکٹ کی پیروی کر رہا ہے جب کہ انگریزوں نے اپنے قانون بدل لیے ہیں۔ ایف آئی آر میں لگائی جانے والی چاروں دفعات قابلِ ضمانت ہیں ایسے حالات میں عام آدمی کو کیسے انصاف مل سکتا ہے۔
'پرائیویٹ ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں'
ثریا منظور وسطی پنجاب میں تین عشروں سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بڑے شہروں کی سرکاری یونیورسٹیوں میں طالبات کے لیے ہاسٹلز کا نہ ہونا المیہ ہے۔ دوسرے شہروں سے داخلہ لینے والی طالبات کو پرائیویٹ ہاسٹلز میں رہنا پڑتا ہے جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے جس وجہ سے والدین بسا اوقات سرکاری ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کو کالج یا یونیورسٹی داخل نہیں کراتے اور یوں اُن کی تعلیم اُدھوری رہ جاتی ہے۔
اُن کے بقول ملک میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا قانون 509 ت پ تو موجود ہے لیکن اس قانون میں سقم ہے کہ ملزمان کو سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے اس نوعیت کے سنگین واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں۔
ثریا منظور کہتی ہیں کہ اسمبلیوں میں ایسے ایشوز پر بات نہیں کی جاتی، کسی کی مرضی کے خلاف اس کی ویڈیو بنانے کے جس جرم یعنی 292 ت پ کی سزا کم از کم عمر قید یا سزائے موت ہونی چاہیے اس کی سزا تعزیرات پاکستان میں صرف تین ماہ قید ہے، اس ناانصافی کا قصوروار کون ہے۔
ثریا منظور کہتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل بہاولپور یونیورسٹی کا کیس بھی سامنے آیا جسے دبا دیا گیا اور سیاسی ایشو قرار دے دیا گیا۔
اُن کے بقول اسلام آباد کے ہاسٹلز میں زیادتی کے کیس بھی سامنے آ چکے ہیں۔ جب تک ان معاملات کی سنجیدہ اور ٹھوس تحقیقات نہیں ہوں گی۔ بچیاں اور ان کے والدین اذیت میں ہی رہیں گے۔
ثریا منظور کہتی ہیں کہ خواتین اور طالبات کے تمام پرائیویٹ اور سرکاری ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کے لیے ہر ضلع میں کمیٹیاں قائم ہونی چاہئیں، اس بچی کی سکیورٹی کے لیے بھی فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر اور سی پی او کو اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
'کسی حکومتی ادارے کے پاس پرائیویٹ ہاسٹلز کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں'
قومی اسمبلی کی رکن شازیہ فرید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت پنجاب کے 12 اضلاع میں 16 ورکنگ ویمن ہاسٹل ہیں جن میں مجموعی طور پر 625 خواتین کے قیام کی گنجائش ہے۔
لاہور میں چار، راولپنڈی میں دو جب کہ فیصل آباد، ساہیوال، ملتان، بہاولپور، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، گوجرانوالہ، رحیم یار خان، وہاڑی اور سرگودھا میں ایک ایک ہاسٹل ہے۔ لیکن طالبات کے لیے الگ سے سرکاری ہاسٹلز بنانا محکمہ تعلیم کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
شازیہ فرید کا کہنا تھا کہ "پنجاب میں اس وقت کتنے پرائیویٹ ہاسٹلز ہیں اس کا کسی بھی حکومتی ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، مختلف شہروں میں رہائشی عمارتیں کرایہ پر لے کر ہاسٹلز بنائے گئے ہیں جن کی صرف متعلقہ تھانے کو اطلاع دی جاتی ہے۔"
اُن کے بقول ہاسٹلز مالکان نے خود ہی کرائے اور رہائشیوں کے لیے اصول طے کر رکھے ہیں، طالبات ہاسٹل انتظامیہ کی شکایت بھی کریں تو کس سے کریں کیوں کہ پرائیویٹ ہاسٹلز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایسی کوئی اتھارٹی ہی موجود نہیں جو ایسے ہاسٹلز کے خلاف کارروائی کر سکے۔ "
متاثرہ لڑکی (ر) کہتی ہے کہ وہ ہمت نہیں ہاریں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ معاشرہ ظالم کا ساتھ دیتا ہے اور مظلوم کو اپنا مؤقف ثابت کرنے میں وقت اور پیسہ دونوں خرچ کرنا پڑتے ہیں۔
"میں لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ طالبہ بھی ہوں، اپنا کیس کیسے چلا سکتی ہوں، پنجاب کی وزیراعلی بھی ایک خاتون ہیں جنہیں میرے ساتھ ہونے والے واقعہ کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے اور مجھے تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملزم کو قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے۔ "
فورم