خلیجی تعاون کونسل کے چھ اراکین نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ ایران کو ہتھیاروں کی ترسیل کے بین الاقوامی امتناع کی مدت میں توسیع کر دی جائے۔ امریکہ بھی اس اقدام کی پرزور حمایت کرتا آیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق خلیجی تعاون کوننسل کے چھ ارکان نے اتوار کے دن جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ چونکہ ایران مسلسل اپنے پڑوسی ملکوں میں مداخلت کرتا آ رہا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایران کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل پر اقوام متحدہ کی جانب سے عائد پابندی کی مدت میں توسیع کر دی جائے۔
جلیجی تعاون کونسل میں بحرین، کویت، اومان، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شامل ہیں۔
ایران پر عائد اس پابندی کی مدت 18 اکتوبر کو عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ختم ہو جائے گی۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے تھے۔ بعد میں سن 2018 میں امریکہ نے اس معاہدے سے لا تعلقی اختیار کر لی تھی۔
اقوام متحدہ کے نام اس خط سے خلیجی ملکوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کا اظہار ہوتا ہے۔ 2017 کے وسط میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ سیاسی، تجارتی اور نقل و حمل کے تعلقات اس الزام کی بنیاد پر منقطع کر لیے تھے کہ قطر ایران کو خوش کرنے کے لیے دہشت گردی کی حمایت اور امداد کرتا ہے۔ بحرین نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
خلیجی تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل نائف فلاح مبارک ال ہجرف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران سے اور ایران کو ہتھیاروں کی ترسیل پر عائد پابندیوں کو ہٹانا اس وقت تک غیر مناسب ہو گا، جب تک ایران خطے کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں اور دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے باز نہیں آ جاتا۔
اگر پابندی کی اس مدت میں توسیع نہ کی گئی تو امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ 2015 کے معاہدے کے تحت ایران کےخلاف جن پابندیوں کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا، وہ اقوام متحدہ کی ان تمام پابندیوں کو واپس لانے کی قرار داد پیش کرے گا۔
امریکی قرار داد کے مسودے کی حمایت کے لیے سلامتی کونسل کے کم از کم نو ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے، جن کے ذریعے چین اور روس کو اس قرار داد کو ویٹو کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ روس اور چین پہلے ہی یہ اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ ایسی قرار داد کو ویٹو کر دیں گے۔ بعض سفارت کاروں کو یہ شبہ ہے کہ آیا امریکہ مطلوبہ 9 ووٹ حاصل کر بھی سکے گا۔