قطر اور خطے کی دیگر خلیجی ریاستوں اور عرب ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے سفارتی تنازع کے حل کے لیے کویت نے رابطے شروع کردیے ہیں۔
قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے عرب نیوز چینل 'الجزیرہ' کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی حالیہ تنازع کے بعد پیر کی شب قوم سے خطاب کرنے والے تھے جسے کویت کے امیر کی درخواست پر روک دیا گیا ہے۔
قطری وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ امیرِ کویت نے پیر کی شام اپنے قطری ہم منصب کو فون کرکے مجوزہ خطاب منسوخ کرنے کا کہا تھا تاکہ انہیں تنازع کے حل کے لیے مزید وقت مل سکے۔
کویت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق امیرِ کویت شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح نے شیخ تمیم پر زور دیا ہے کہ وہ "تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جس سے صورتِ حال مزید خراب ہو۔"
اطلاعات ہیں کہ سعودی شاہی خاندان کے ایک اہم فرد سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا پیغام لے کر کویت پہنچے ہیں۔ دوسری جانب سلطنتِ عمان کے ایک اعلیٰ سفارت کار بھی تنازع کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں قطر میں موجود ہیں۔
اطلاعات تھیں کہ قطر کے امیر اپنے خطاب میں عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والے تھے۔
گزشتہ روز فیصلہ سامنے آنے کے بعد قطری وزارتِ خارجہ نےاپنے ابتدائی ردِ عمل میں کہا تھا کہ یہ ممالک قطر کو اپنی "باج گزار ریاست" بنانا چاہتے ہیں۔
منگل کو 'الجزیرہ' سے گفتگو میں قطری وزیرِ خارجہ نے بھی قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے والے عرب ملکوں کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک "قطر کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے اس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔"
گزشتہ روز مصر اور چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کے تین ارکان – سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین – نے قطر کی حکومت پر اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحا حکومت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور تمام زمینی، فضائی اور سمندری رابطے معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں خانہ جنگی کا شکار یمن کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت، لیبیا کے مشرقی علاقے میں قائم حکومت، مالدیپ اور ماریشس نے بھی قطر کےبائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
قطر تین جانب سے سمندر میں گھرا ہوا ہے اور اس کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہے جسے سعودی حکومت نے بند کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی علاقے میں سرحد کی بندش کے باعث اشیائے خور و نوش اور دیگر سامان قطر لے جانے والے ٹرکوں کی قطار لگ گئی ہے۔
قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی حکومت نے کہا تھا کہ وہ یہ قدم قطر کی جانب سے مختلف دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تنظیم کی مدد کرنے پر اٹھا رہی ہے جو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق عرب ممالک قطر کی حکومت کے ایران اور اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے ساتھ قریبی تعلقات پر برہم ہیں جسے بیشتر عرب ملکوں کے حکمران اپنے اقتدار کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2014ء میں بھی انہی الزامات کی بنیاد پر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
تاہم خلیج تعاون کونسل کے دیگر دو ارکان کویت اور عمان نے اس وقت بھی قطر کے ساتھ اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور اب بھی حالیہ تنازع کا حصہ نہیں بنے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے گزشتہ روز قطر اور تنازع کے دیگر فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے اختلافات بات چیت سے حل کریں۔ انہوں نے پیش کش کی تھی کہ امریکہ ان ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے بھی تیار ہے۔