اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ پیدائش کے نمبر کا بچوں کی نفسیاتی نشوونما پر گہرا اثر ہوتا ہے، جیسا کہ عام تاثر ہے کہ بڑا بچہ زیادہ ذمہ دار اور متحرک ہوتا ہے، اور آخری بچے کو لاپرواہ اور خودپسند کہا جاتا ہے، جبکہ درمیانے بچے بہن بھائیوں کے بیچ میں دب کر ان کے سائے میں چھپ جاتے ہیں۔
لیکن ایک نئے مطالعے میں ماہرین نے ان عام دقیانوسی تصورات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے انھیں کافی حد تک مسترد کر دیا ہے۔
امریکی یونیورسٹی ایلی نوائے سے وابستہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پیدائش کا نمبر، شخصیت اور عقل پر معمولی مگر اعداد و شمار کے لحاظ سے اہم اختلافات پیدا کرتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اختلافات بہت ہی معمولی نوعیت کے ہیں، جسے روزمرہ کی زندگی میں کوئی بھی شخص آسانی سے نوٹ نہیں کر سکتا ہے۔
برتھ آرڈر کےحوالے کی جانے والی تحقیق کے نتائج 337,000 ہائی اسکول کے طالب علموں کے اعدا و شمار پر مبنی ہیں، جس میں امریکی سائنس دانوں نے تجویز کیا ہے کہ پیدائش کا نمبر آپ کی شخصیت اور ذہانت کو نمایاں طور پر متاثر نہیں کرتا ہے۔
یہ مطالعہ 'جرنل آف ریسرچ ان پرسنلٹی' نامی جریدے میں شائع ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ پہلا بچہ زیادہ ذمہ دار، متفق اور فرض شناس ہوتا ہے، وہ دوسرے بہن بھائیوں کے مقابلے میں کم بے چین ہوتا ہے، لیکن بڑے بچے کی یہ خصوصیات دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں نہیں تھیں، لہذا پیدائش کی ترتیب کے حوالے سے فی الحال یہ نتائج جامع بیانات تیار کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
مطالعہ نے تجویز کیا کہ پہلے بچے کا آئی کیو اسکور دوسرے بچوں سے نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، لیکن ذہانت کے حوالے سے بہن بھائیوں کے درمیان اختلافات بہت تھوڑے ہیں، جس کا ان کی عملی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہے۔
تحقیق کے مصنف ڈاکٹر برینٹ رابرٹ کے مطابق، پیدائش کے نمبر سے متعلقہ اختلافات دراصل بہن بھائیوں کے آپس کے چھوٹے موٹے اختلافات سے کہیں زیادہ والدین کی سمجھداری اور ان کے برتاؤ پر منحصر ہوتے ہیں۔
نتائج سے نشاندہی ہوئی کہ پہلے بچے کو چھوٹے بہن بھائیوں کے مقابلے میں ایک پوائنٹ کا فائدہ حاصل تھا۔ بڑے بچے کی شخصیت کی خصوصیات کے لحاظ سے 0.02 فیصد باہمی اختلافات ملے ہیں، لیکن شخصیت کی خصوصیات کے لحاظ سے یہ فرق نا ہونے کے برابر تھا۔
پروفیسر رابرٹ نے کہا کہ اگرچہ اعداد و شمار کے لحاظ سے اس فرق کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اتنا معمولی اختلاف عملی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، مثال کے طور پر ایک دوا دس ہزار مریضوں میں سے دس کی جان بچاتی ہے لیکن حقیقت میں یہ کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ متعدد تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ والدین اپنے بڑے بچے کو زیادہ ذمہ دار سمجھتے ہیں، اور ان کا یہ سوچنا اس لحاظ سے درست ہے، کیونکہ پہلا بچہ حقیقتاً بڑا اور زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے۔
تحقیق کاروں نے کہا کہ، مطالعہ کا پیغام یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش کا نمبر آپ کے والدین کے کردار پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ اس کا آپ کے بچے کی ذہانت اور شخصیت پر برائے نام اثر ہے۔
محقق الفریڈ ایڈلر کو بچوں کی پیدائش کی ترتیب کے مطالعہ کا بانی کہا جاتا ہے، ان کی تحقیق میں پہلی بار ظاہر ہوا تھا کہ بچے کی پیدائش کا نمبر، اس کی نشوونما اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
جبکہ اکیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والے مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی کہ پیدائش کا نمبر ایک بالغ شخص کی ذہانت، اس کے کیرئیر اور مستقبل کی کامیابیوں پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔