اسلام آباد کےمعروف شاپنگ مال سینٹورس مال میں لگنے والی آگ پر اسلام آباد پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے. تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مال کو نامعلوم ملزمان نے آگ لگائی۔
ضلعی انتظامیہ نےچھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ جب تک مال کے حفاظتی نظام کا پوری طرح معائنہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک مال مکمل طور پر سیل رہے گا۔
ابتدائی تحقیقات کے لیے ٹیم نے مال کے اندر جس مقام پر آگ لگی تھی، اس کا جائزہ لیا ہے، جس کے بعد ٹیم جلد اپنی رپورٹ ضلعی انتظامیہ کو پیش کرے گی۔
مال میں لگنے والی آگ کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس آتش زدگی کے نتیجے میں مال میں فوڈ کورٹ میں بنے ریسٹورنٹ کے علاوہ کسی دکان کو نقصان نہیں پہنچا اور کوئی بھی شخص زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔
سینٹورس مال میں آتش زدگی دن تقریباً ساڑھے تین بجے ہوئی اور چند ہی لمحوں میں اس نے تیسرے فلور پر موجود ریسٹورنٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ زیادہ تر بیرونی حصہ میں لگی۔ اطلاع ملنے پر سینئر پولیس افسران اور انتظامیہ کے عہدیداران ریسکیو ٹیموں کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔
ریسکیو ٹیموں نے شاپنگ مال میں پھنسے افراد کو عقبی راستے ایف ایٹ کی جانب سے باحفاظت نکالا جس کے بعد ٹیمیں مال کے اندر سرچ آپریشن بھی کیا گیا۔ آگ لگنے کے بعد سینٹورس مال کی تیسری منزل سے دھواں بلند ہوا اور آسمان پر دھوئیں کے بادل دکھائی دیے۔
ریسکیو آپریشن میں سی ڈی اے اسلام آباد کی اسنارکلز نے اہم کردار ادا کیا اور 25 منزلوں تک رسائی رکھنے والی فائر بریگیڈ کی ان گاڑیوں کے ذریعے آگ بجھا دی گئی۔ اس آپریشن میں نیوی اور ایئرفورس کے فائر ٹینڈرز بھی آگ بجھانے کے عمل میں شامل رہے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ آگ لگنے کے چند گھنٹوں بعد اس پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے کوشش تھی کہ لوگوں کو وہاں سے نکلا جائے۔ تمام لوگوں کو بروقت عمارت سے باہر نکالا گیا جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے مطابق کولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ماہرین اس عمارت کا معائنہ کریں گے اور پھر رپورٹ آنے کے بعد ہی رہائشیوں کو گھروں پر جانے کی اجازت ہوگی۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق آگ لگنے کی وجہ کا پتا لگانے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ شاپنگ مال کے اندز فائر الارم لگے ہوئے تھے یا نہیں۔ اس پر بھی کمیٹی تفتیش کرے گی۔ کمیٹی یہ بھی چیک کرنے کی پابند ہے کہ انتظامیہ کا اس وقت کیا ردِ عمل تھا، جب تک مال کے حفاظتی نظام کو پوری طرح چیک نہیں کر لیا جاتا تب تک سنٹورس مال سیل رہے گا۔
دوسری جانب شاپنگ مال آتش زدگی کے حوالے سے چھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جس میں اسسٹنٹ کمشنر انڈسٹریل ایریا ،ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر، سی ڈی اے کے دو ڈائریکٹر، سی ڈی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر بھی شامل ہیں۔
یہ تحقیقاتی کمیٹی تین روز میں تحقیقات مکمل کر کے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچاؤ کے لیے اپنی سفارشات بھی پیش کرے گی۔
سینٹورس مال کے مالک سردار تنویر الیاس کون ہیں؟
آتش زدگی کے واقعے کے بعد پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ اعظم سردار تنویر الیاس موقع پر تو نہ پہنچے البتہ ان کے صاحب زادے اور مال کی انتظامیہ کے حکام موقع پر پہنچے۔ ان افراد نے ضلعی انتظامیہ سے فوری اقدامات نہ کرنے پر گلہ بھی کیا ۔
سردار تنویر الیاس کا نام سب سے پہلے سینٹورس مال کے لیے زمین کی خریداری کے وقت سامنے آیا تھا، جب اسلام آباد کے سنگم پر پمز اسپتال کے سامنے اس وقت کی سب سے زیادہ قیمت کے ساتھ چھ ارب روپے میں سینٹورس مال کے لیے زمین کی خریداری کی گئی تھی۔
اس وقت سینٹورس مال میں 26, 26 منزلہ تین ٹاور موجود ہیں جب کہ ڈیزائین کے مطابق ایک چوتھا ئی 36 منزلہ ٹاور بننا باقی ہے۔
اربوں روپے مالیت کے سینٹورس ٹاورز میں مختلف شراکت دار شامل ہیں، جن میں خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار بھی ہیں لیکن پاکستان میں سردار تنویر الیاس ہی ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
تنویر الیاس چھوٹی بڑی 13 کمپنیوں پر مشتمل ’سردار گروپ آف کمپنیز‘ کے صدر ہیں اور ان کا گروپ ریئل اسٹیٹ کے علاوہ ٹائل مینوفیکچرنگ، آئی ٹی و ٹیلی کام سیکٹر سمیت مختلف شعبہ جات میں کام کر رہا ہے۔
اس گروپ نے کچھ سال قبل میڈیا کے شعبے میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا اور ’سردار میڈیا گروپ کمپنی‘ کے پاس اس وقت چار ٹی وی چینلز اور چار ایف ایم ریڈیو چینلز کے لائسنس موجود ہیں تاہم ان پر ابھی باقاعدہ کام کا آغاز نہیں ہوا۔
کچھ عرصہ قبل اس کمپنی کے ذریعے ’ایشیئن نیوز‘ کے نام سے ایک اردو اخبار بھی نکالا گیا لیکن آزمائشی اشاعت کے بعد یہ اخبار بند ہو چکا ہے۔
اس آتش زدگی کے بعد سوشل میڈیا پر بعض افراد الزام عائد کررہے ہیں کہ سیاسی مخالفت میں مال میں آگ لگائی گئی لیکن اب تک سردار تنویر الیاس یا حکام کی طرف سے اب تک ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔