رسائی کے لنکس

لوک سبھا ارکان کی حلف برداری: 'لگتا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ ہو گا'


  • ماہرین کے مطابق لوک سبھا میں مضبوط اپوزیشن کی وجہ سے مودی حکومت کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  • اسپیکر کے عہدے کے سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ابتدائی طور پر اتفاقِ رائے ہونے کے باوجود بات بگڑ گئی۔
  • کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک وزیرِ اعظم سے امید کر رہا تھا کہ وہ درپیش چیلنجز پر بات کریں گے۔
  • مودی حکومت کو درپیش چیلنجز کا اندازہ پہلے روز اسی وقت ہو گیا جب حزبِ اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کے ارکان آئین کی کاپی اپنے ہاتھوں میں لے کر ایوان میں پہنچے۔

نئی دہلی -- بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کے بعد پیر کو نئے ارکان نے حلف اُٹھا لیا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی مودی حکومت کو مضبوط اپوزیشن کی صورت میں بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اٹھارہویں پارلیمان کا پہلا اجلاس پیر کو نئے ارکان کو حلف دلانے کے ساتھ شروع ہوا۔ حلف برداری کا سلسلہ منگل تک چلے گا اور بدھ کو اصل سیشن شروع ہو گا۔

مودی حکومت کو درپیش چیلنجز کا اندازہ پہلے روز اسی وقت ہو گیا جب حزبِ اختلاف کے اتحاد ’انڈیا‘ کے ارکان آئین کی کاپی اپنے ہاتھوں میں لے کر ایوان میں پہنچے اور وزیرِ اعظم نریندر مودی اور دیگر وزرا کی حلف برداری کے دوران اسے لہراتے رہے۔

اسپیکر کے عہدے کے سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ابتدائی طور پر اتفاقِ رائے ہونے کے باوجود بات بگڑ گئی۔ لہٰذا حکومت نے سابق اسپیکر اوم برلا اور حزبِ اختلاف نے سینئر کانگریس رکن کے سریش کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

حکومت کی جانب سے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ثالث بنایا گیا تھا۔ اسپیکر کا انتخاب 26 جون کو ہو گا۔

کانگریس، سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان جو کہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے اکثریت سے دور رہنے اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے کی وجہ سے جوش میں ہیں۔ پیر کو پارلیمان کے باہر اس مقام پر جہاں پہلے گاندھی جی کا مجسمہ ہوا کرتا تھا اکٹھا ہوئے۔

'ذمے دار اپوزیشن کی توقع کرتے ہیں'

پہلے روز ایوان میں جانے سے قبل میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جہاں یہ کہا کہ آزادی کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب کوئی حکومت مسلسل تیسری بار اقتدار میں آئی ہے، وہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ملک اور عوام کی خدمت کے لیے تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے گی۔

اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک ایک ذمہ دار اپوزیشن چاہتا اور اس سے اچھے اقدامات کی توقع رکھتا ہے۔ گزشتہ پارلیمان میں اپوزیشن نے مایوس کیا۔ لیکن اس بار امید ہے کہ وہ جمہوریت کے وقار کو بنائے رکھے گا۔ عوام اپوزیشن سے ایوان کے اندر نخرہ، ڈرامہ اور رخنہ اندازی نہیں بلکہ کام چاہتے ہیں۔

ادھر راہل گاندھی سے جب میڈیا نمائندوں نے پوچھا کہ وہ لوگ آئین کی کاپی لے کر ایوان کے اندر کیوں آئے تو انھوں نے کہا کہ مودی حکومت کی جانب سے زیادہ حملہ آئین پر کیا گیا۔ حکومت آئین کو بدلنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا ہرگز نہیں کرنے دیں گے۔

'وزیرِ اعظم بہت سے مسائل پر خاموش ہیں'

کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک وزیرِ اعظم سے امید کر رہا تھا کہ وہ درپیش چیلنجز پر بات کریں گے۔ میڈیکل میں داخلے کے لیے منعقد ہونے والے امتحان ’نیشنل ایلی جبلٹی کم انٹرینس ٹیسٹ‘ (نیٹ) مغربی بنگال میں ٹرین حادثے اور منی پور میں جاری نسلی فساد کے بارے میں بولیں گے لیکن وہ ان مسائل پر خاموش رہے۔

جب وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان حلف اٹھانے کے لیے عبوری اسپیکر کی میز کے پاس جا رہے تھے تو اپوزیشن ارکان کی جانب سے نیٹ نیٹ کا نعرہ لگایا جا رہا تھا۔ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو اپوزیشن بینچوں پر سب سے آگے تھے اور وہ پرزور احتجاج کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ نیٹ کا امتحان میڈیکل کورس میں داخلے کے لیے ملک کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ امسال اس میں 23 لاکھ 33 ہزار طلبہ بیٹھے تھے۔ جب کہ مختلف کالجوں میں داخلوں کے لیے چند سو نشستیں ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیٹ کے امتحان میں بہت بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے جس پر پورے ملک میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت دو اتحادی جماعتوں ’تیلگو دیسم پارٹی‘ (ٹی ڈی پی) اور ’جنتا دل یونائیٹڈ‘ (جے ڈی یو) کی حمایت سے چل رہی ہے لہٰذا اس کے گر جانے کے خطرات ہمیشہ رہیں گے۔

'اس بار حکومت کمزور اور اپوزیشن مضبوط ہے'

سینئر تجزیہ کار کے پی ملک کا کہنا ہے کہ اس بار حکومت کمزور اور اپوزیشن مضبوط ہے۔ پارلیمانی اجلاس کے پہلے دن کی صبح سے ہی اپوزیشن کے سخت تیور کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت دباؤ میں ہے۔ بدھ کو اسپیکر کا انتخاب ہو گا اس موقع پر بھی توقع ہے کہ حکومت کو سخت اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت اپنی پسند کا اسپیکر منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ گزشتہ لوک سبھا میں اسپیکر اوم برلا نے اپوزیشن کے تئیں بے حد سخت رویے کا مظاہرہ کیا تھا۔ انھوں نے تقریباً 150 اپوزیشن ارکان کو معطل کیا تھا۔

کے پی ملک کہتے ہیں کہ 17 ویں لوک سبھا میں کوئی بھی ڈپٹی اسپیکر نہیں تھا۔ اس لوک سبھا میں اسپیکر کے ساتھ ساتھ ڈپٹی اسپیکر بھی ہو گا۔ لہٰذا نئے اسپیکر اپنی مرضی کے مطابق فیصلے نہیں کر پائیں گے۔ اس بار لوک سبھا کی کارروائی دیکھنے کے لائق اور دلچسپ ہو گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جس طرح پہلے دن اپوزیشن ارکان آئین کی کاپی لے کر ایوان کے اندر پہنچے اور انھوں نے بار بار اسے لہرایا اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئین کے تحفظ کے نام پر بھی حکومت اور اپوزیشن میں ٹکراؤ ہو گا۔

کے پی ملک کے مطابق یہ بہت اچھی بات ہے کہ دونوں جانب سے آئین کو بچانے کی بات کی جا رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے اس معاملے پر عوام کو گمراہ کیا ہے۔ اس معاملے پر حکومت دفاعی پوزیشن میں ہے۔ جب کہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت 400 نشستیں اس لیے چاہتی تھی تاکہ آئین کو بدل سکے۔

واضح رہے کہ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے کہا تھا کہ اگر 400 سے زائد سیٹیں مل گئیں تو آئین کو بدل دیا جائے گا۔ حالاں کہ وزیر اعظم اپوزیشن پر آئین کو بدلنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

کے پی ملک نے وزیر اعظم مودی کی جانب سے ایمرجنسی کے متعلق بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے کو اٹھا کر اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یاد رہے کہ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کو 25 جون کو 50 سال ہو جائیں گے۔


ملک ارجن کھڑگے نے ایمرجنسی سے متعلق وزیر اعظم مودی کے بیان پر سخت احتجاج کیا۔ انھوں نے ان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایمرجنسی کے 50 سال پورے ہونے کا ذکر کر رہے ہیں لیکن گزشتہ 10 برس سے جاری غیر اعلانیہ ایمرجنسی کو بھول گئے۔

'لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ ہو گا'

سینئر تجزیہ کار پردیپ سوربھ کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ٹکراؤ ہو گا لیکن نریندر مودی کا کام کرنے کا جو طریقہ ہے اس کے پیش نظر ایسا کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے۔

انھوں نے ایک یو ٹیوب چینل پر ہونے والے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مودی نے کابینہ سازی سے ہی اس کا عندیہ دے دیا ہے۔ انھوں نے ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کے ارکان کو کوئی خاص عہدے نہیں دیے۔

واضح رہے کہ اس بار کی لوک سبھا گزشتہ لوک سبھا کے مقابلے میں کافی مختلف ہے۔ گزشتہ لوک سبھا میں بی جے پی کو 303 نشستیں ملی تھیں جب کہ اس بار اسے 240 ملی ہیں۔ یعنی وہ سادہ اکثریت کے لیے ضروری 272 تک بھی نہیں پہنچ سکی۔

گزشتہ لوک سبھا میں کانگریس کے 52 ارکان تھے۔ اس بار 99 ہیں۔ پچھلی بار سماجوادی پارٹی کے پانچ ارکان تھے اس بار 37 ہیں۔ جب کہ مجموعی طور پر اپوزیشن ارکان کی تعداد 233 ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے نیٹ کے امتحان میں مبینہ بدعنوانی، مہنگائی، بے روزگاری، منی پور، چین کے ساتھ سرحدی تنازع اور اس جیسے دیگر امور اٹھائے جائیں گے۔

نشریاتی ادارے ’نیوز18‘ نے حکومت کے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نیٹ اور دیگر مسائل پر حقائق عوام کے سامنے رکھے گی۔ وہ تمام سوالوں کے جواب دینے کو تیار ہے۔ کوئی بھی بات چھپائی نہیں جائے گی۔

انتخابی مہم کے دوران سینئر تجزیہ کار ابھے دوبے کا کہنا تھا کہ نریندر مودی تھوڑا جھک کر حلیفوں کی حمایت حاصل کر لیں گے لیکن اس کے بعد پھر اپنے انداز میں حکومت چلائیں گے۔ متعدد تجزیہ کاروں کی رائے اس رائے سے ملتی جلتی نظر آر ہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG