|
خفیہ دستاویز کی اشاعت پر سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی جولین اسانج رواں ہفتے امریکی محکمۂ انصاف کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اپنے خلاف مجرمانہ الزامات کا اعتراف کریں گے۔
مجرمانہ الزامات کے اعتراف کے بدلے اسانج آزاد رہ سکیں گے اور ان کے خلاف طویل عرصے سے جاری قانونی چارہ جوئی ختم ہو جائے گی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق آسٹریلوی شہری جولین اسانج پیر کو ایک برطانوی جیل سے رہائی کے بعد رواں ہفتے کے آخر میں امریکہ کے بحرالکاہل میں شمالی ماریانا جزائر میں امریکی وفاقی عدالت میں پیش ہوں گے۔
امریکی محکمۂ انصاف نے عدالت میں جمع کرائے گئے ایک خط میں بتایا ہے کہ جولین اسانج امریکہ کے جاسوسی ایکٹ کے الزام میں جرم کا اعتراف کریں گے کہ وہ غیر قانونی طور پر قومی دفاع کی خفیہ معلومات حاصل کرنے اور پھیلانے کی سازش میں ملوث تھے۔
امریکی نظامِ انصاف کے مطابق مجرمانہ درخواست کی جج سے منظوری ضروری ہے۔
اے پی کے مطابق توقع ہے کہ قانونی کارروائی کے بعد اسانج آسٹریلیا واپس چلے جائیں گے۔ توقع ہے کہ اسانج کو پانچ سال قید کی سزا سنائی جائے گی جو وہ پہلے ہی ایک سخت سیکیورٹی والی برطانوی جیل میں گزار چکے ہیں۔
ماریانہ جزیرے میں سماعت کیوں؟
ماریانا جزیرہ میں عدالت کی سماعت اس مقام کی آسٹریلیا سے قربت کی وجہ سے ہو رہی ہے کیوں کہ اسانج نے برِاعظم امریکہ آنے کی مخالفت کی تھی۔
اس طرح جولین اسانج کے اعتراف جرم کے ساتھ ان کے خلاف بین الاقوامی سازش کے مجرمانہ مقدمے میں امریکی حکومت کا کئی سالوں سے جاری ان کا تعاقب اپنے اختتام کو پہنچے گا۔
واضح رہے کہ وکی لیکس خفیہ معلومات کی انتہائی مقبول شیئرنگ ویب سائٹ رہی ہے اور پریس کی آزادی کے بہت سے داعیوں کے نزدیک معلومات کو منظر عام پر لانے سے جولین پریس کی آزادی کو منوانے کی وجہ بنے تھے۔
پریس کی آزادی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جولین اسانج نے امریکی فوج کے غلط کاموں کو بے نقاب کرنے کے لیے بطور صحافی کام کیا۔
دوسری طرف تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اسانج کا اقدام حساس معلومات کے تحفظ کی خلاف ورزی ہے اور خفیہ معلومات شائع کر کے اسانج نے امریکی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔
اسانج کو دنیا بھر میں بہت سے لوگوں نے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے جو عراق اور افغانستان میں فوجی غلطیوں کو سامنے لائے تھے۔ ان کی ویب سائٹ کی طرف سے شائع کی گئی فائلوں میں 2007 میں بغداد میں امریکی افواج کے اپاچی ہیلی کاپٹر حملے کی ایک ویڈیو بھی تھی جس میں خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے دو صحافیوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تاہم، اسانج کو ریپ کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے جس سے ان کی ساکھ داغدار ہوئی۔ تاہم وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
امریکی محکمۂ انصاف نے 2019 میں اسانج پر ایک فرد جرم عائد کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کی انٹیلی جینس تجزیہ کار چیلسی میننگ کی 2010 میں شائع ہونے والی سفارتی کیبلز اور ملٹری فائلز کو چرانے میں حوصلہ افزائی اور مدد کی تھی۔
استغاثہ نے اسانج پر الزام لگایا تھا کہ امریکی دستاویزات کو شائع کر کے اس نے امریکہ اور اس کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا اور اس کے مخالفین کی مدد کی۔
اسانج کی طرف سے اعتراف جرم کی درخواست کا یہ معاہدہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے چند ماہ بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ آسٹریلیا کی جانب سے اسانج کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے امریکی دباؤ کو ختم کرنے کی درخواست پر غور کر رہے ہیں۔
امریکی انٹیلی جینس تجزیہ کار میننگ کو جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے اور وکی لیکس کو خفیہ سرکاری اور فوجی دستاویزات لیک کرنے کے جرم میں 35 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم، سابق امریکی صدر براک اوباما نے 2017 میں اس کی سزا میں کمی کر کے اسے تقریباً سات سال جیل کی سزا میں بدل دیا تھا۔
اسانج سال 2016 میں اس وقت دنیا بھر میں خبروں میں نمایاں ہوئے جب ان کی ویب سائٹ نے ڈیموکریٹک ای میلز شائع کیں جن کے بارے میں استغاثہ کا کہنا ہے کہ روسی انٹیلی جینس کارکنوں نے چوری کی تھیں۔ لیکن اس سلسلے میں روس کے کردار پر کی جانے والی تفتیش میں کبھی بھی اسانج پر الزام عائد نہیں کیا گیا تھا۔
اگرچہ اس کے بعد روس پر تحقیقات نے اس سال کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں مداخلت میں ہیکنگ آپریشن کے کردار کو واضح کر دیا۔
دریں اثنا، اسانج کے اہل خانہ اور حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت ایک دہائی سے زیادہ قانونی لڑائیوں کے دوران متاثر ہوئی ہے۔ ان لڑائیوں میں لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے کے اندر گزارے گئے سات سال بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ اسانج نے 2012 میں لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لی تھی۔ انہیں پناہ دینے کی وجہ برطانوی عدالتوں کا فیصلہ تھا کہ اسانج کو سویڈن میں ریپ کے ایک کیس میں تحقیقات کے سلسلے میں ملک کے حوالے کیا جائے۔
برطانوی پولیس نے اسانج کو 2019 میں ایکواڈور کی حکومت کی جانب سے سیاسی پناہ کی حیثیت واپس لینے کے بعد گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں انہیں جیل بھیج دیا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔
فورم