بلوچستان میں چمن دوستی گیٹ پر پاکستانی اور افغان عہدیداروں کے درمیان بدھ کو ’ون اسٹار فلیگ میٹنگ‘ ہوئی ہے، تاہم پاکستان نے سرحدی دیہات سے اپنے فوجی واپس بلانے سے انکار کیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے ایک بیان کے مطابق اس سرحدی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت ایف سی بلوچستان کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل جب کہ افغان بارڈر پولیس کے سابق بریگیڈئیر نے اپنے ملک کے وفد کی سربراہی کی۔
بیان کے مطابق افغان وفد نے پاکستان سے کہا کہ مرد شماری کے عمل کی بحالی سے قبل پاکستان کلی لقمان اور کلی جہانگیر سے اپنے فوجی نکال لے۔
تاہم پاکستان کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی فوجی بین الاقوامی سرحد پر اپنی جانب تعینات ہیں اور وہیں تعینات رہیں گے۔
بیان کے مطابق جب تک اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو جاتا، دونوں ممالک نے فائر بندی پر اتفاق کیا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں چمن کے سرحدی دیہات میں پاکستانی و افغان فورسز کے درمیان جھڑپ کے بعد دوستی گیٹ تاحال بند ہے۔
پاک افغان سرحد پر واقع کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں سرحد پار سے افغان فورسز کی فائرنگ سے دو پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے، جب کہ اس جھڑپ میں افغان حکام کے مطابق افغانستان کی سرحد پولیس کے دو اہلکار بھی مارے گئے۔
افغان حکام کا موقف تھا کہ اس علاقے میں مردم شماری کرنے والی پاکستانی ٹیم کے لوگ افغان علاقے میں داخل ہوئے تھے جس پر یہ کارروائی کی گئی تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستانی عملے اپنی حدود میں ہی کام کر رہا تھا۔
پاک افغان سرحد پر منقسم گاﺅں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں سرحد کے تعین کے لیے دونوں ممالک کے عہدیداروں کی طرف سے سروے بھی کیا گیا لیکن تاحال اس بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا۔
دریں اثنا پاکستان نے افغان سفارت خانے کے ناظم الامور کو طلب کر کابل میں پاکستانی سفارتی عملے کے اراکین کو تحویل میں لینے پر احتجاج کیا ہے۔
وزارت خارجہ سے بدھ کی شب جاری بیان کے مطابق پاکستانی سفارتی عملے کے دو اراکین کو کابل میں اطلاعات کے مطابق افغان سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے تحویل میں لیا گیا۔
اس معاملے پر پاکستان کا شدید احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے افغان ناظم الامور کو بتایا گیا کہ یہ واقعہ سفارتی تعلقات سے متعلق 1961 کے ویانا کنونشن اور برادرانہ تعلقات کی روح کے منافی ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ایسے واقعات تعمیری دوطرفہ روابطہ کی کوششوں کے لیے بھی نقصان ہیں۔
افغان حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستانی عملے اور سفارت خانے کے تحفظ و سکیورٹی کے لیے فوری اقدام کرے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نا ہوں۔
افغان حکومت کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔