پاکستان کے شمال مغربی شہر چارسدہ میں گزشتہ ماہ دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والی باچا خان یونیورسٹی پیر کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے دوبارہ کھول دی گئی۔
20 جنوری کو یہاں دہشت گردوں نے حملہ کر کے طلبا اور اساتذہ سمیت کم از کم 21 افراد کو ہلاک اور 25 کو زخمی کر دیا تھا جب کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے۔
پیر کی صبح طلبا و طالبات یونیورسٹی پہنچے جن کے لیے انتظامیہ کے مطابق بحالی کا پروگرام بھی ترتیب دیا گیا تاکہ حملے کے بعد ممکنہ طور پر نفسیاتی دباؤ اور خوف کے شکار طالب علموں کی مدد کی جا سکے۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر فضل الرحیم نے یونیورسٹی میں طلبا و طالبات کو خوش آمدید کہا جس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے تمام ممکن اقدامات کو مزید بہتر کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی کیمپ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے تاکہ اگر "کسی کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو تو اس میں مدد دی جا سکے۔"
یونیورسٹی کے ترجمان سعید احمد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ بیرونی دیواروں کو مزید بلند کرنے کے علاوہ یونیورسٹی کے گردو پیش پر نظر رکھنے کے لیے متعدد واچ ٹاورز بھی بنائے گئے ہیں۔
’’میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ سکیورٹی کے حوالے سے ہم نے اپنی یونیورسٹی کی دیواریں جو کسی حد تک چھوٹی تھیں انھیں ہم نے 14 فٹ تک بلند کر دیا ہ،ے اس کے اوپر ہم نے خاردار تار لگائے ہوئے ہیں ہر 100 میٹر کے بعد ہم نے ایک واچ ٹاور بنایا ہوا ہے۔ جدید اسلحہ ہم نے لے لیا ہے ہمارے پاس 55 سکیورٹی گارڈز تھے ان کے علاوہ 20 ریٹائرڈ فوجی کے اہلکاروں کے ہم نے دو تین دن پہلے انٹرویوز کیے تھے اور بیس بندے ہم نے لے لیے ہوئے ہیں۔‘‘
یونیورسٹی انتظامیہ اساتذہ کو لائسنس شدہ اسلحہ اپنے ہمراہ لانے کی بھی اجازت دی ہے۔
دہشت گردی سے متاثرہ صوبے خیبر پختونخواہ میں یہ دوسرا تعلیمی ادارہ تھا جس پر شدت پسندوں نے مہلک حملہ کیا۔
16 دسمبر 2014ء کو مرکزی شہر پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 130 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسے ملکی تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ قرار دیا جاتا ہے۔
پشاور اور پھر چارسدہ میں تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملوں کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی سے متعلق خدشات نے زور پکڑا تھا اور حکام کا کہنا ہے کہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر ان کی سلامتی کے لیے موثر اقدام کیے گئے ہیں۔
اُدھر پیر کو قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں دیسی ساخت کے ایک بم دھماکے میں سکیورٹی فورسز کا ایک اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔