رسائی کے لنکس

کراچی کا صدیوں پرانا ’چوکنڈی قبرستان‘


اس قبرستان میں 15سے 18صدی عیسوی تک کی قبریں موجود ہیں۔ یہ نیشنل ہائی وے پر لانڈھی کے قریب ہے ۔ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق چوکنڈی کی قبریں دو قبیلوں’جوکھیوں‘ اور’بلوچوں‘سے منسوب کی جاتی ہیں۔

’مکلی کا قبرستان ‘صوبہ سندھ کے سب سے مشہور آثار قدیمہ میں شمار کیا جاتا ہے جو کراچی سے کچھ فاصلے پر اور تاریخی شہر ٹھٹھہ کے قریب واقع ہے۔

پاکستان اور خاص کر سندھ کا ہر شہری اس کے نام اور اس کی اہمیت سے واقف ہے لیکن عین کراچی شہر میں بھی مکلی سے مشابہت رکھنے والا قبرستان بھی واقع ہے، اس کا علم کم لوگوں کو ہے۔

اسے ’چوکنڈی قبرستان‘ کہا جاتا ہے۔ اس قبرستان میں 15سے 18صدی عیسوی تک کی قبریں موجود ہیں۔ یہ نیشنل ہائی وے پر لانڈھی کے قریب ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق چوکنڈی کی قبریں دو قبیلوں’جوکھیوں‘ اور’بلوچوں‘سے منسوب کی جاتی ہیں۔

چوکنڈی کے لغوی معنی’ چار کونوں‘ کے ہیں۔ چونکہ یہاں موجود تمام قبروں کے چار کونے ہیں غالباً اسی وجہ سے اسے ’چوکنڈی قبرستان‘ کا نام ملا۔

تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ جنگ شاہی بھی سندھ کا ایک چھوٹا سا شہر ہے اور ٹھٹھہ کے قریب ہی واقع ہے۔ جنگ شاہی میں یہ پتھر آج بھی اسی رنگ میں ملتا اور استعمال ہوتا ہے۔

سنگ مرمر کی طرح اس پر بھی کسی قسم کی سفیدی یا رنگ و روغن کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پندرہوں صدی میں بنی چوکنڈی کی قبریں موسموں کی انگنت سختیاں جھیلنے کے باوجود قائم و دائم ہیں۔

چوکندی کی قبریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ مستطیل نما قبریں عموماً ڈھائی فٹ چوڑی، پانچ فٹ لمبی اور چار سے چھ فٹ تک اونچی ہیں۔

قبروں پر باقاعدہ نقاشی کی گئی ہے۔ نقاشی میں پھول بوٹے، مختلف ڈیزائن، مصری بادشاہوں کے تاج سے ملتے جلتے سرہانےاور جالیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کچھ قبروں پر بلندوبالا گنبد بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ ان قبروں میں عام لوگ مدفن نہیں۔ یقیناً یہ کوئی عہدہ یا اعلیٰ مقام رکھتے ہوں گے۔

بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی ہیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ قبریں اس دور کے فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن افسوس ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی جس سے یہ تاریخی ورثہ ضائع ہو رہا ہے۔ بیشتر قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ لینڈ مافیا رفتہ رفتہ قبروں کو ختم کرکے اراضی پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔

اکا دکا کتابوں کے علاوہ جدید دور کی کتابوں میں چوکنڈی قبرستان کا ذکر تک نہیں ملتا اس لئے نوجوان نسل اپنے ہی تاریخی اور قدیمی ورثے سے لاعلم ہے۔

ریسرچر یا مورخین کا یہاں آنا تو محال دکھائی دیتا ہے تاہم نوجوانوں کے لئے اس قبرستان کی اب صرف فوٹوگرافی کی حد تک اہمیت رہ گئی ہے جبکہ بعض افراد اسے ملبوسات اور دیگر اشیا کی ماڈلنگ کے لئے محض ایک ’اچھے مقام‘ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔

XS
SM
MD
LG