واشنگٹن —
اطلاعات ہیں کہ امریکہ کی حکومت اپنے خفیہ اداروں کی جانب سے امریکی شہریوں کی ٹیلی فون کالوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی پہ پابندی عائد کرنے سے متعلق ایک نیا قانون متعارف کرانے والی ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق مجوزہ قانون کے تحت امریکی حکومت کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ٹیلی فون کمپنیوں سے مشتبہ دہشت گردوں کی مبینہ ٹیلی فون کالوں کا ریکارڈ طلب کرنے سے قبل عدالت سے اس کی اجازت لے گی۔
امریکہ میں خفیہ اداروں کی جانب سے جاسوسی اور نگرانی سے متعلق اس نوعیت کے معاملات 'فارن انٹیلی جنس سرویلئنس کورٹ' نامی عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔
عدالت سے اجازت ملنے کی صورت میں فون کمپنیاں امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی' کو مشتبہ نمبر سے کی جانے والی یا اسے موصول ہونے والی ٹیلی فون کالوں کی معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔
نئے قانون کی منظوری کے بعد ٹیلی فون کمپنیوں کو مشتبہ نمبرز کی کالوں کا ریکارڈ رکھنے کی پابند نہیں ہوں گی جو اس وقت انہیں رکھنا پڑتا ہے۔
مجوزہ قانون 'این ایس اے' کی جانب سے عام افراد کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی بڑے پیمانے پر نگرانی سے متعلق ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے بعد صدر براک اوباما کے حکم پر شروع کیے جانے والے جائزے کی روشنی میں متعارف کرایا جارہا ہے۔
صدر اوباما نے حکام کو 28 مارچ سے قبل 'این ایس اے' کی سرگرمیوں سے متعلق نئی پالیسی وضع کرنے کی ہدایت کی تھی۔'این ایس اے' کی موجودہ سرگرمیوں سے متعلق سرکاری اجازت اس جمعے کو ختم ہورہی ہے۔
اوباما انتظامیہ کے تجویز کردہ قانون سے ملتا جلتا ایک دوسرا قانون منگل کو امریکی ایوانِ نمائندگان میں پیش کیا جارہا ہے جسے ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ری پبلکن چیئرمین اور کمیٹی کے سرکردہ ڈیموکریٹ رکن نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔
مجوزہ قانون میں بھی 'این ایس اے' کی جانب سے عام شہریوں کی ٹیلی فون کالوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی اور ان کا ریکارڈ مرتب کرنے پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔
لیکن اس قانون میں حکومت کی جانب سے ٹیلی فون کمپنیوں سے معلومات طلب کرنے کو عدالتی اجازت سے مشروط نہیں کیا گیا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق مجوزہ قانون کے تحت امریکی حکومت کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ٹیلی فون کمپنیوں سے مشتبہ دہشت گردوں کی مبینہ ٹیلی فون کالوں کا ریکارڈ طلب کرنے سے قبل عدالت سے اس کی اجازت لے گی۔
امریکہ میں خفیہ اداروں کی جانب سے جاسوسی اور نگرانی سے متعلق اس نوعیت کے معاملات 'فارن انٹیلی جنس سرویلئنس کورٹ' نامی عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں۔
عدالت سے اجازت ملنے کی صورت میں فون کمپنیاں امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی' کو مشتبہ نمبر سے کی جانے والی یا اسے موصول ہونے والی ٹیلی فون کالوں کی معلومات فراہم کرنے کی پابند ہوں گی۔
نئے قانون کی منظوری کے بعد ٹیلی فون کمپنیوں کو مشتبہ نمبرز کی کالوں کا ریکارڈ رکھنے کی پابند نہیں ہوں گی جو اس وقت انہیں رکھنا پڑتا ہے۔
مجوزہ قانون 'این ایس اے' کی جانب سے عام افراد کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی بڑے پیمانے پر نگرانی سے متعلق ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات کے بعد صدر براک اوباما کے حکم پر شروع کیے جانے والے جائزے کی روشنی میں متعارف کرایا جارہا ہے۔
صدر اوباما نے حکام کو 28 مارچ سے قبل 'این ایس اے' کی سرگرمیوں سے متعلق نئی پالیسی وضع کرنے کی ہدایت کی تھی۔'این ایس اے' کی موجودہ سرگرمیوں سے متعلق سرکاری اجازت اس جمعے کو ختم ہورہی ہے۔
اوباما انتظامیہ کے تجویز کردہ قانون سے ملتا جلتا ایک دوسرا قانون منگل کو امریکی ایوانِ نمائندگان میں پیش کیا جارہا ہے جسے ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ری پبلکن چیئرمین اور کمیٹی کے سرکردہ ڈیموکریٹ رکن نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔
مجوزہ قانون میں بھی 'این ایس اے' کی جانب سے عام شہریوں کی ٹیلی فون کالوں کی بڑے پیمانے پر نگرانی اور ان کا ریکارڈ مرتب کرنے پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔
لیکن اس قانون میں حکومت کی جانب سے ٹیلی فون کمپنیوں سے معلومات طلب کرنے کو عدالتی اجازت سے مشروط نہیں کیا گیا۔