پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس نے ایک ذیلی عدالت کے جج کے گھر پر کام کرنے والی 10 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ ہفتے ہی ملک کے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تھا۔
ملک کے اعلیٰ ترین جج کی طرف سے ایک کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے واقعہ کا از خود نوٹس لینے کے بعد اس معاملے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک کم عمر گھریلو ملازمہ کو برآمد کیا تھا۔
پولیس کے مطابق لڑکی کو برآمد کرنے کے بعد اُس کا طبی معائنہ بھی کروایا گیا، جس کے مطابق اس کا ایک ہاتھ جلا ہوا تھا اور اُس کے چہرے پر بھی تشدد کے نشان تھے۔
ایک معروف قانون دان اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ضیا احمد اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے اس معاملے کا از خود نوٹس لینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
’’چیف جسٹس نے بہت ہی بروقت یہ فیصلہ کر کے ہمیں سرخرو کیا ہے، خاص طور پر عدلیہ اور بار کو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چاہے وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی محکمے کا ہو۔۔۔ اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا محاسبہ ہونا چاہیئے۔‘‘
ضیا اعوان نے کہا کہ عام تاثر یہ ہے کہ عدلیہ اور بعض دیگر اہم محکموں سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی لیکن اُن کے بقول اس اقدام سے اُس تاثر کی نفی ہو گی۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا ہے تو اُنھیں توقع ہے کہ بچوں کی مشقت، خاص طور پر بچوں کے گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے سے متعلق حقائق سامنے آئیں گے اور اُن کے حل پر بھی زور دیا جائے گا۔
ایک روز قبل یعنی منگل کو تشدد کا نشانہ بننے والے لڑکی کے والد اور ذیلی عدالت کے جج اور اُن کی اہلیہ کے مابین اس بارے میں معاملہ طے پا گیا تھا۔
گھریلو ملازمہ کے والد نے ایک ذیلی عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان حلفی جمع کروایا تھا جس میں اُنھوں نے ملزمان کو معاف کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے ایسا کر رہے ہیں۔
کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد اور اس کے بعد ملزمان کو معاف کر دینے کا معاملہ پاکستانی میڈیا میں موضوع بحث بنا رہا ہے، خاص طور پر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اس معاملے کو کسی مصلحت کے تحت نہیں دبنے دینا چاہیئے۔