رسائی کے لنکس

چھتیس گڑھ: جمعے کے خطبوں کی پہلے منظوری کے معاملے پر تنازع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں وقف بورڈ نے نمازِ جمعہ کے خطبات کی پہلے سے منظوری لینے کی ہدایت کی ہے۔
  • مقامی علما اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
  • بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور مساجد کے اماموں نے اس ہدایت پر تنقید کی ہے اور اسے ان کے مذہبی امور میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔
  • چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وقف بورڈ کے سربراہ سلیم راج ریاست میں بی جے پی کے اقلیتی شعبے کے سربراہ ہیں۔

نئی دہلی -- بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں جمعے کے خطبات سے قبل ان کی منظوری لینا لازمی قرار دیے جانے پر مسلم تنظیموں کی جانب سے ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

چھتیس گڑھ کے وقف بورڈ نے تمام مساجد کے متولیوں کو ہدایت کی ہے کہ خطیب حضرات جمعے کے خطبے سے قبل اس کا موضوع اور مواد وقف بورڈ کو ارسال کریں۔ وہ ان کی جانچ کرے گا۔

چھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب کسی ریاست کے وقف بورڈ نے اس قسم کی ہدایت جاری کی ہے۔ اس کے مطابق اس ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور مساجد کے اماموں نے اس ہدایت پر تنقید کی ہے اور اسے ان کے مذہبی امور میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔

چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے چیئرمین سلیم راج نے جو کہ بی جے پی کے ریاستی اقلیتی شعبے کے صدر بھی ہیں، متولیوں کا ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہے۔

اسی گروپ پر یہ ہدایت جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مساجد سے سیاسی تقریریں نہیں ہونی چاہئیں۔ سلیم راج کو ایک ماہ قبل ہی بورڈ کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا۔

'مذہبی مقامات کو سیاست کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے'

سلیم راج نے ہفتے کو رائے پور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مذہبی مقامات سیاست کا اڈہ نہیں ہونے چاہئیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ مسجدوں سے فتوے جاری کیے جاتے ہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے کس کو نہیں۔ انھیں صرف اسلام کی باتیں کرنی چاہئیں۔ سیاست کو سیاست دانوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں بورڈ کی جانب سے ریاست کی 3800 مساجد کو خط ارسال کیے جا رہے ہیں اور اس ہدایت کا اطلاق اسی جمعے سے ہو جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ریاست کی مساجد سیاست کے مراکز میں تبدیل ہو گئی ہیں جہاں سے متولی عوام پر اپنی سیاسی خواہشیں تھوپتے ہیں۔

انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ متعدد مساجد کے متولیوں کی جانب سے مالی بے ضابطگی کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ مختلف ریاستوں میں بہت سی مسجدیں وقف بورڈ کے تحت آتی ہیں جن کے اماموں اور موذنین کی تنخواہیں بورڈ ادا کرتا ہے۔ جہاں متولیوں کی مالی بے ضابطگی کی شکایت کی بات کی جاتی ہے وہیں بہت سے وقف بورڈز کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ وہاں تنخواہوں کی ادائیگی میں بے ضابطگی ہے۔

بورڈ چیئرمین کی برطرفی کا مطالبہ

کانگریس نے یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے کہ یہ ہدایت غیر قانونی، غیر مذہبی اور غیر اخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ اظہار خیال کی آزادی کے منافی بھی ہے۔

پارٹی کے قومی ترجمان میم افضل نے کہا کہ چھتیس گڑھ وقف بورڈ کے چیئرمین کو فوری طور پر برطرف کر دینا چاہیے۔

ان کے بقول یہ بہت حساس معاملہ ہے اور اس ہدایت کی وجہ سے پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہو سکتی ہے۔ کسی بھی ملک میں خطیب حضرات کو ایسی ہدایت نہیں ہے کہ وہ حکومت سے اجازت لے کر جمعے کا خطبہ دیں یا تقریریں کریں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی ہدایت جاری کریں۔ انھوں نے اسے حکومت کی شان میں قصیدہ خوانی کی ہدایت سے تعبیر کیا اور اسے انتہائی خطرناک قرار دیا۔

میم افضل نے اس معاملے کو حکومت کی جانب سے پیش کردہ متنازع وقف ترمیمی بل سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ اس بل کی وجہ سے ہی اس قسم کی ہدایت جاری کرنے کا حوصلہ ملا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ وہ وقف ترمیمی بل کو پارلیمان میں پیش ہی نہ ہونے دیتے۔ حالاں کہ اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے لیکن وزیر داخلہ امت شاہ علیٰ الاعلان کہہ چکے ہیں کہ مودی حکومت اس کو منظور کراکے چھوڑے گی۔ حالاں کہ چھ کروڑ افراد نے اس بل کے خلاف اپنی رائے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کی ہے۔

کانگریس میڈیا سیل کے ترجمان سشیل آنند شکلا نے اس ہدایت کو اظہار خیال اور اپنے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔

انھوں نے اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کو اپنی املاک کا جائزہ لینے کا اختیار ہے لیکن اسے مساجد کے اماموں کو یہ ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

'اب بی جے پی والے بتائیں گے کہ ہم اپنے مذہب پر کیسے چلیں؟'

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی اس ہدایت کو غیر آئینی قرار دیا اور اس پر شدید تنقید کی۔

اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ اب بی جے پی کے لوگ ہمیں بتائیں گے مذہب کیا ہے۔ کیا مجھے اپنے مذہب پر چلنے کے لیے ان لوگوں سے اجازت لینا ہو گی۔ وقف بورڈ کو اس کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔ اور اگر ہے بھی تو وہ دستور کی دفعہ 25 کے منافی ہے۔

سات ریاستوں سے شائع ہونے والے راجستھان کے ہندی اخبار ’راجستھان پتریکا‘ کی ویب سائٹ پتریکا نیوز کے مطابق رائے پور کی بعض مساجد کی کمیٹیوں میں اس پر اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق قاضی شہر محمد علی فاروقی کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ کو مدرسوں اور مسجدوں میں ہونے والی نماز کے وقت اور تہواروں کے سلسلے میں مداخلت کرنا غیر مناسب ہے۔ وقف بورڈ کے حکم کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا مساجد کمیٹیوں پر منحصر ہے۔

دہلی کی تاریخی مسجد فتح پوری کے امام مفتی مکرم احمد نے اس ہدایت پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اس کے پس پردہ سیاست کارفرما ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص اشتعال انگیزی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کے لیے قانون موجود ہے۔ لیکن بھارت جیسے سیکولر ملک میں اس قسم کا عمومی حکم جاری کرنا مذہبی آزادی میں مداخلت ہے۔

ان کے بقول اس کا مقصد عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا اور اس سے حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچانا بھی ہو سکتا ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقف بورڈ کے چیئرمین حکومت سے کوئی بڑا عہدہ چاہتے ہوں۔

مفتی مکرم احمد نے مزید کہا کہ اگر کسی مسجد سے کوئی قابلِ اعتراض گفتگو کی گئی ہے تو اس کے ذمہ داروں کو سمجھایا جا سکتا ہے اور افہام و تفہیم سے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

بی جے پی کا مؤقف

ادھر بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مسجدوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے سے روکنا ہے۔

چھتیس گڑھ بی جے پی کے ترجمان توقیر رضا نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر ملک یا ریاست کے خلاف کوئی متنازع بیان دیا جاتا ہے یا ملک دشمن عناصر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔

ان کے بقول ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں تاکہ مساجد کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG