سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ریلوے خسارہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت کے طلب کیے جانے پرسابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق پیش ہوئے۔
دوران سماعت مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے پوچھا کیا آپ نے آڈٹ رپورٹ دیکھی ہے؟ اس پر آپ پندرہ دن کے اندر اپنا جواب جمع کرا دیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ اپنے ضمنی الیکشن میں مصروف ہیں۔ رپورٹ انہیں نہیں ملی۔ جواب کيسے دے دوں؟ میں کوئی اکاونٹس افسر نہیں۔
چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق سے کہا کہ آپ وکیل کریں اور کسی کنسلٹنٹ سے مشورہ کر کے جواب دیں۔آپ اتھارٹی تھے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا اتھارٹی صرف خدا کی ہے۔
چیف جسٹس نے ريمارکس دیئے کہ تم کس انداز ميں بات کررہے ہو؟ جس پر سعد رفیق نے کہا کہ انہیں ’تم‘ نہ کہا جائے، آپ چیف جسٹس ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کس غصے میں ہو؟ خواجہ سعد رفیق بولے کسی غصے میں نہیں، خدا کا نام لینے پر ڈانٹ نہیں پڑنی چاہیے۔ خواجہ سعد رفیق بولے یہ انصاف نہیں ہے، انہوں نے پہلے بھی کہا تھاکہ ان کے دور کا موازنہ پچھلے ادور سے نہ کرائیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ يہ کس انداز میں بات کر رہے ہو؟ اپنا غرور ، اپنی اکڑ گھر چھوڑ کر آؤ۔
جواب میں خواجہ سعد رفیق بولے’ـججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق بے عزتی کا اختیار تو آپ کو بھی نہیں ہے‘
دوران سماعت سعد رفیق نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تباہ حال ریلوے کو کھڑا کیا ہے اور وہ شاباشی کا سوچ کر عدالت آتے ہیں لیکن یہاں ڈانٹ پڑ جاتی ہے۔
اس پر جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ آپ یہی لکھ کر دے دیں، پھر عدالت سوچے گی کہ آپ کو شاباش ملنی چاہیے یا نہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جواب جمع کرانے کے لیے وقت بڑھایا جائے۔
عدالت نے بعد ازاں خواجہ سعد رفیق کو آڈٹ رپورٹ پر اپنا جواب جمع کرانے کے لیے تیس دن کا وقت دے دیا۔