خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری کی طرف سے صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں محصولات جمع کرنے کے لیے قائم چوکیوں کو ختم کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے جس پر بعض قبائلی عمائدین نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے قبائلی عوام کے ساتھ ظلم قرار دیا ہے۔
چیف سیکرٹری کے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ قبائلی انتظامیہ کو قبائلی اضلاع میں راہداری، درآمدی و برآمدی ٹیکسز اور لیویز جمع کرنے کا اختیار نہیں ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی شخص یہ رقوم جمع نہ کرے۔
فاٹا کے صوبے میں انضمام سے قبل مختلف علاقوں میں چوکیاں قائم کر کے وہاں ٹیکس وصول کیا جاتا تھا جس سے مقامی علاقے کی ضروریات کو پورا کرنے کا بتایا جاتا ہے۔
چیف سیکرٹری کے نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ تمام چوکیاں ختم کر دی جائیں اور صرف وہی ٹیکسز وصول کیے جائیں گے جن کی ملکی قوانین اجازت دیتے ہیں۔
قبائلی ضلع خیبر میں افغان سرحد کی طرف جانے والے علاقوں میں بعض مقامات پر ان چوکیوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما ملک صلاح الدین آفریدی نے بعض دیگر عمائدین کے ساتھ مل کر پشاور میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ملک صلاح الدین نے دعویٰ کیا کہ ان چوکیوں سے حاصل ہونے والی رقم نے نہ صرف مقامی لوگوں کی مدد کی جاتی تھی بلکہ اس سے طلبا کو بھی فنڈز مہیا کیے جاتے تھے۔
"راہداری قبائل لے جاتے ہیں ان پر گزارا ہوتا تھا، قبائل پر تو بے انتہا ظلم ہوا ہے اس لیے کہ جب انضمام کا مسئلہ تھا تو ان سے پوچھا بھی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہو، نہ ریفرنڈم کیا نہ کوئی مشورہ لیا۔ سراسر ہم پر ظلم کیا۔۔نگران حکومت میں ایسے احکامات تو ہونے ہی نہیں چاہیئں۔"
ان کا کہنا تھا کہ وہ قبائلی علاقے کے لوگ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کریں گے۔
گزشتہ ماہ ہی قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کی منظوری دی گئی تھی اور بتدریج ان علاقوں میں اصلاحات کرنے کا بتایا گیا تھا۔