بیجنگ اور کابل نے افغانستان میں امن بات چیت کی بحالی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں قابل قبول لائحہ عمل جلد ترتیب دیا جانا چاہیے۔
منگل کو چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی بیجنگ میں ملاقات ہوئی جس میں امن عمل کی بحالی کی کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان جنگ سے تباہ حال ملک میں امن عمل کی بحالی کی کوششوں پر دو اجلاس ہو چکے ہیں جب کہ تیسرا اجلاس چھ فروری کو اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے۔
چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے اپنے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ چار فریقی مذاکراتی حکمت عملی کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن بات چیت کے لیے درکار ماحول پیدا کرنا ہے۔
"ہمیں امید ہے کہ چاروں فریق جلد از جلد مصالحت کا ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں گے جو تمام کے لیے قابل قبول ہو۔"
طالبان کے نمائندوں اور افغان حکومت کے مابین پہلی براہ راست ملاقات گزشتہ جولائی میں پاکستان کی میزبانی میں ہوئی تھی لیکن اس کے بعد یہ عمل بوجوہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
بعد ازاں طالبان کی طرف سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہلاکت خیز حملوں میں اضافے سے امن عمل کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچا۔
افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
"ہم نے طالبان کے تمام گروپوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں کیونکہ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل امن اور مذاکرات ہی ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہمیں پڑوسی ملک پاکستان کی طرف سے بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ مصالحتی اور امن عمل کی حمایت کرے گا۔"
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ پرامن افغانستان کے لیے افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے امن عمل کی حمایت اور تعاون کی پالیسی پر کاربند ہے کیونکہ اس کے بقول ایک پرامن اور مستحکم افغانستان خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔
امریکہ بھی ان مصالحتی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے اپنے تعاون کا اعادہ کر چکا ہے۔
صلاح الدین ربانی بطور وزیرخارجہ پہلی مرتبہ چین کے دورے پر ہیں جہاں پیر سے انھوں نے اپنے اس چار روزہ دورے کا آغاز کیا تھا۔
چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ رواں سال دونوں ملکوں کے مابین پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ بھی ہے۔