رسائی کے لنکس

چین کا نیا سرحدی قانون ہمالیہ کے پہاڑوں میں بھارتی اور چینی فوجیوں کو کتنا عرصہ آمنے سامنے رکھے گا؟


بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان اس سال فروری میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول گلوان وادی پر جھڑپ کے یہ مناظر چین کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے جاری ویڈیو سے لئے گئے ہیں ۔ فوٹو سی سی ٹی وی بذریعہ اے ایف پی
بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان اس سال فروری میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول گلوان وادی پر جھڑپ کے یہ مناظر چین کے سرکاری ٹی وی کی جانب سے جاری ویڈیو سے لئے گئے ہیں ۔ فوٹو سی سی ٹی وی بذریعہ اے ایف پی

بھارت نے چین کی قومی نیشنل پیپلز کانگریس کی جانب سے ہفتے کے روز نیا زمینی سرحدی قانون منظور کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ چین یک طرفہ طور ایسا کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے گا ،جس سے دونوں ملکوں کی سرحدی حدبندی میں کوئی تبدیلی آئے۔

وائس آف امریکہ کی نمائندہ انجنا پسریچہ کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ نیا قانون اس بات کا اشارہ ہے کہ چین نے بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعے پر سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

چین اپنے نئے سرحدی قانون کا یکم جنوری سے نفاذ کر رہا ہے جسے چین اپنی خود مختاری اور سالمیت کے لیے مقدس اور پائیدار قرار دیتا ہے۔

اس قانون کے مطابق چین اپنی علاقائی سالمیت اور زمینی سرحدوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرے گا اور ہرایسی کارروائی کا مقابلہ کرے گا جو اس کی علاقائی سالمیت اور زمینی سرحدوں کے لیے خطرہ ہو گی۔

چین نے پہلی بار ایک ایسا قانون منظور کیا ہے، جس میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی زمینی سرحدوں کی کس طرح حفاظت کرے گا۔ چین کی سرحدیں چودہ ملکوں سے ملتی ہیں، جن میں روس بھی شامل ہے مگر صرف بھارت اور بھوٹان کے ساتھ اس کا سرحدی تنازعہ ایک عرصے سے چلا رہا ہے۔

بدھ کو بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یک طرفہ طور پر چین نے جس قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے، اس سے نہ صرف ہماری دو طرفہ اور موجودہ سرحدی حد بندی اور انتظامات متاثر ہوں گے،بلکہ سرحدی علاقوں کے سلسلے میں ہمارے تحفظات کو بھی زک پہنچے گی۔

وزارت کے ترجمان اریندم باگچی نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ملکوں نے اتفاق کیا تھا کہ سرحد کے مسئلے کے منصفانہ، معقول اور باہمی طور قابل قبول حل کے لیے مشاورت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ چین اس قانون کی آڑ میں کوئی ایسا یک طرفہ قدم نہیں اٹھائے گا جو بھارت چین کے سرحدی علاقوں کو تبدیل کر دے۔

نئے قانون سے اس تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کے حل ہونے کی امید ماند پڑ سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلے پر مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مذاکرات اسی ماہ دونوں ملکوں کے فوجی لیڈروں درمیان ہوئے ہے۔ نئی دہلی میں سینٹر فار سیکیورٹی، سٹرٹیجی اور ٹیکنالوجی کی ڈائریکٹر راجیشوری پلائی راجاگوپالن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں، مگر سب بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں اور اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔

راجا گو پالن کا مزید کہنا تھا کہ چین اپنے موقف میں سختی لا رہا ہے، اور وہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ زیادہ طاقتور ہے۔

دوسری طرف چین کی رین من یونی ورسٹی کے سکول آف لا کے ڈین وینگ ژو نے وہاں کے اخبار گلوبل ٹائیمز میں لکھا ہے کہ اس قانون کے ذریعے سرحدی تنازعات سے نمٹنے کے لیے ایک گائیڈ لائین مل جائے گی۔ اس میں چین اور بھارت کے درمیان موجودہ سرحدی تنازع بھی شامل ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ نئے چینی قانون سے ایسی حالت مزید طول پکڑے گی، جس کے تحت ہمالیائی علاقے میں بھارت اور چین کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔

XS
SM
MD
LG