|
چین نے کم ہوتی شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا ہے۔ بیجنگ کی جانب سے ملک کے کالجز اور یونیورسٹیز پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ شادی، محبت، بچوں کی پیدائش اور خاندان کے بارے میں مثبت خیالات پر زور دینے کے لیے 'لوو ایجوکیشن' یعنی محبت کی تعلیم فراہم کریں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق چین میں سال 2023 میں مسلسل دوسرے سال آبادی میں کمی کے بعد سے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں اور بچوں کی پیدائش کو نوجوان جوڑوں کے لیے مزید پُرکشش بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ لیکن یہ آبادی تیزی سے بڑھاپے کی طرف بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں حکومتی اخراجات پر دباؤ اور معیشت پر اثر پڑے گا۔
چینی ادارے جیانگ سو شنہوا نیوز پیپر گروپ نے ایک سرکاری اشاعت ’چائنا پوپولیشن نیوز‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کالج کے طلبہ پیدائش کی شرح بڑھانے میں ایک بڑی قوت ثابت ہوں گے۔ لیکن شادی اور محبت کے بارے میں ان کے خیالات نمایاں طور پر تبدیل ہوگئے ہیں۔
اشاعت میں کہا گیا ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیز کو شادی اور محبت کی تعلیم کے کورسز کی پیشکش کرکے طلبہ کو شادی اور لو ایجوکیش فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
اس اشاعت میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات شادی اور بچے پیدا کرنے کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے مثبت ماحول بنانے میں مددگار ہوں گے۔
چائنا پاپولیشن نیوز کے سروے میں کالج کے تقریباً 57 فی صد طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ محبت میں نہیں پڑنا چاہتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ تعلیم اور محبت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے کیسے وقت مختص کیا جائے۔
اس میں کہا گیا کہ شادی اور محبت سے متعلق سائنسی اور منظم بنیادوں پر تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے کالج کے طلبہ میں جذباتی رشتوں سے متعلق تصورات بہت غیر واضح ہیں۔
اشاعت میں کہا گیا کہ یونیورسٹیز جونیئر کالج کے طلبہ کو آبادی، قومی حالات، نئی شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے تصورات سے متعلق تعلیم دینے پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔
مزید یہ کہ کالج کے سینئر طلبہ اور گریجویشن کے طلبہ کو بے تکلفانہ تعلقات اور صنف مخالف کے ساتھ روابط کے لیے کیس انالسزز، گروپ ڈسکشن کے ذریعے آگاہی دی جاسکتی ہے۔
یہ کورسز انہیں شادی اور محبت کو درست طریقے سے سمجھنے اور محبت کے تعلقات کو بہتر طریقے سے نبھانے میں مدد فراہم کریں گے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم