اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں گڑبڑ ہوتی ہے، چین وہاں موجود ہوتا ہے۔ وہ وسائل اور توانائی کے عوض، ایسی حکومتوں کی حمایت کرتا ہے جن پر انسانی حقوق اور دوسری خلاف ورزیوں کے الزامات ہوتے ہیں۔چین اپنی پیٹرولیم کی ایک تہائی سے زیادہ درآمدات کے لیے افریقہ پر انحصار کرتا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان در آمدات کے بغیر، اسے اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار قائم رکھنے میں بعض شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن اٹلانٹک کونسل کے پیٹر فام کہتے ہیں کہ یہ سوچنا کہ چین کو صرف ایک ہی چیز سے، یعنی توانائی کے حصول سے دلچسپی ہے ، سادہ لوحی ہو گی۔’’چین کو دنیا میں اپنے مقام کی بھی فکر ہے ۔ افریقہ اور اس کے 53 ملک جو جلد ہی 54 ملک ہو جائیں گے، بین الاقوامی اجتماعات میں اپنا جو سفارتی اثر و رسوخ لاتے ہیں، ا س سے چین کے قومی مفادات کو فائدہ پہنچتا ہے۔‘‘
افریقہ میں چین کے سوڈان اور زمبابوے سے قریبی تعلقات ہیں۔ یہ دو ایسے ملک ہیں جن پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، ان ملکوں پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔زمبابوے کے صدر رابرٹ مگابے جو گذشتہ تین عشروں سے بر سرِ اقتدار ہیں، بیجنگ کے دیرینہ اتحادی رہے ہیں۔
چین کی حمایت کے عوض، زمبابوے نے چین کو اپنی40 سے زیادہ مختلف معدنیات کے ذخائر تک رسائی فراہم کی ہے، بلکہ چین کو اپنی زمین بھی دے دی ہے جس میں فصلیں اگائی جاتی ہیں، جو چین کو بھیجی جا سکتی ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلے فورنیا، Irvine میں اقتصادیات کے پروفیسر پیٹر ناواروکہتے ہیں’’زمبابوے میں ہیروں سے لے کر تمباکو اور زرعی زمین تک، ہر چیز موجود ہے ۔ چین وہاں پہنچ گیا ہے اور اب وہاں بہت سے چینی کاشتکار زمبابوے کی زمین میں فصلیں اگا رہے ہیں جو چین کو بھیج دی جاتی ہیں، جب کہ زمبابوے کے لوگ بھوک سے پریشان ہیں۔‘‘
زمبابوے کے تمباکو کا سب سے بڑا خریدار چین ہے۔ فام کہتے ہیں کہ چائینا انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کمپنی نے جنوبی زمبابوے میں 100,000 ہیکٹرز سے زیادہ زمین فصلیں اگانے کے لیے لیز پر لی ہوئی ہے۔ ان فصلوں کی پیداوار چین کو واپس بر آمد کر دی جاتی ہے۔
اس کے عوض، چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں مگابے اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتا ہے۔
لیکن ایسے دوستوں کی وجہ سے، بیجنگ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے اور چین اپنے رویے کو حسبِ ضرورت ڈھالنے پر مجبور ہوا ہے۔ سوڈان اور ایران کے ساتھ، بیجنگ نے دونوں فریقوں کے ساتھ کام کرنے اور فائد ے اٹھانے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین نے ایران کے خلاف آخری چار پابندیوں کے حق میں ووٹ دیا ہے ، لیکن اس نے ان تجارتی پابندیوں کو مضبوط کرنے یا انہیں وسیع کرنے کی کوششوں کو بلاک کر دیا۔ سوڈان میں، چین نے ان الزامات کا جواب دینے سے احتراز کیا ہے کہ وہ دارفر میں نسل کشی کے جرم میں شریک ہے۔ اس نے خود کو سوڈان کے شمال اور جنوب کے جھگڑے سے بھی دور رکھا ہے ۔
جب سوڈان کے لیے چین کی مدد پر ، جو مشوروں، اسلحہ اور سیاسی حمایت کی شکل میں ہے، 2008 کے بیجنگ اولمپکس کے دوران تنقید عروج پر پہنچ گئی، تو بیجنگ نے افریقی امور کے لیے اپنا پہلا خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔ اس کے بعد ، چین نے دارفر میں اقوامِ متحدہ اور افریقی یونین کی ملی جلی امن فوج میں چینی فوجیوں کو بھی شامل کیا ہے ۔ اٹلانٹک کونسل کے پیٹر فام کہتے ہیں’’اب کئی برسوں سے چین نے جنوبی سوڈان کے ساتھ بھی رابطے قائم کیے ہیں، اور اپنی اس پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے کہ وہ صرف قومی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرے گا۔اس کی ایک وجہ چین کا اپنا مفاد ہے۔
جنوبی سوڈان میں پیٹرول کے بڑے ذخائر ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ افریقی ملکوں اور افریقہ کے لوگوں کے ساتھ ربط ضبط کے نتیجے میں چین کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔‘‘ایشیا میں ، چین نے برما اور شمالی کوریا میں ایک خلا کو پُر کیا ہے جو امریکہ اور دوسرے ملک پُر نہیں کر سکتے تھے ۔
شمالی برما میں چین پن بجلی پیدا کرنے کے کئی ڈیم تعمیر کر رہا ہے تا کہ برما کے تیزی سے پھیلتے ہوئے جنوبی شہروں کو بجلی مل سکے۔ وہ ایک پائپ لائن بھی تعمیر کر رہا ہے جس کے ذریعے برما کے ساحلی علاقے کے سمندر سے نکلنے والا تیل اور گیس دوسرے علاقوں میں بھیجی جائے گی۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ارنسٹ باؤر کہتے ہیں’’چینیوں کی تمام ترتوجہ طویل عرصے کے لیے توانائی کے وسائل حاصل کرنے پر ہے اور یہ وسائل برما میں موجود ہیں۔ چین میں قدرتی گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں اور کچھ تیل بھی ہے ۔ سمندر میں بھی کچھ ذخائر ہیں، اگر چہ ہمیں ابھی یہ نہیں معلوم کی ان ذخائر کی سطح کیا ہے ۔‘‘
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے مارکس نولینڈ کہتے ہیں کہ اگرچہ چین کے اندر شمالی کوریا کے بارے میں مختلف آرا ہیں لیکن عام خیال یہ ہے کہ اسے اپنے مقصد کے لیے جس طرح چاہیں ، استعمال کیا جا سکتا ہے ۔’’شمالی کوریا دوسرے ملکوں کے علاوہ، میزائل اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں پاکستان اور ایران کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور اس طرح چین کو علاقے میں اپنے حریفوں کو، یعنی امریکہ اور بھارت کو تنگ کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی کارروائیوں کے بارے میں قابلِ اعتبار انداز سے انکار جاری رکھ سکتا ہے ۔‘‘
باؤر کہتے ہیں کہ برما اور شمالی کوریا کو یہ اجازت دینے سے کہ وہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ، اپنی من مانی جاری رکھیں، علاقے میں چین کی ساکھ خراب ہوتی ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب تک چینیوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے، اس با ت کا امکان کم ہے کہ ایشیا میں چین صحیح معنوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر سکے۔