بیجنگ میں ہفتے کے روز سے نیشنل پیپلز کانگریس شروع ہو گئی ہے ۔ اس موقع پر حکومت نے کہا ہے کہ سماجی استحکام قائم رکھنا اس کی اولین ترجیح ہے ۔ حال ہی مِیں چین کے لوگوں کے ساتھ ایک آن لائن chat میں وزیر اعظم وین جیا باؤ نے کہا کہ حکومت کو امید ہے کہ غریبوں کی مدد کے ذریعے سماجی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ انھوں نے کہا’’ملک کے اگلے پانچ سالہ منصوبے میں، 2011 سے 2015 تک ہر ضابطے کی ابتدا اس بات سے ہوگی کہ لوگوں کا معیارِ زندگی کیسے بلند کیا جائے ۔‘‘
اس سال کے سیشن میں جو ایک ہفتے جاری رہے گا، اس منصوبے کو آخری منظوری دی جائے گی۔ اس میں ملک کے لیئے کمیونسٹ پارٹی کے مقاصد کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ گذشتہ سال پارٹی کی قیادت کی میٹنگ میں پہلے ہی منظور کیا جا چکا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 2009 میں، تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد خط افلاس کے نیچے زندگی گذار رہے تھے جو سالانہ تقریباً 180 ڈالر فی کس ، یا تقریباً 49 سینٹ روزانہ ہے ۔ عالمی بنک اپنے خط افلاس کے لیئے جو رقم استعمال کرتا ہے، یہ رقم اس کی ایک تہائی ہے ۔ اس لحاظ سے چین میں انتہائی غریب لوگوں کی تعداد 15 کروڑ ہو گی۔
وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت دو حساس سیاسی مسائل سے بھی نمٹنا چاہتی ہے ، یہ مسائل ہیں بدعنوانی اور افراطِ زر۔ چونکہ افراطِ زر سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں اور اس سے سماجی استحکام پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، اس لیئے چینی حکومت قیمتوں میں استحکام قائم رکھنے کو بہت بڑا مسئلہ سمجھتی ہے ۔ جنوری میں افراط ِ زر چار اعشاریہ نو فیصد تھا لیکن غذائی اشیاء کی قیمتوں میں دس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ یونیورسٹی آف سنگاپور میں پبلک پالیسی کے پروفیسر ہوانگ ینگ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے۔’’ان کے لیئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے لیکن یہ بڑی سادہ سی بات ہے۔ یا تو آپ کینسر کی طرح ، کرپشن کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے، یا آپ کو اسے کاٹ کر الگ کرنا ہوگا۔ چینی حکومت کے لیئے اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ کونسے سے حصے کو پہلے کاٹا جائے۔‘‘
ہوانگ کہتے ہیں کہ چینی حکومت کے لیئے دوسرا بڑا مسئلہ امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت میں فرق کا ہے جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔ شہروں میں رہنے والے چینیوں کی آمدنی گاؤں میں رہنے والے چینیوں کی آمدنی کے مقابلے میں تین گنی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ 30 برسوں میں چین نے معیشت کو آزاد کیا ہے اور بہت سی دولت جمع کر لی ہے لیکن اس دولت کو آبادی میں زیادہ منصفانہ انداز سے تقسیم کرنے کے لیئے سیاسی اصلاحات ضروری ہیں۔’’ہم جانتے ہیں کہ جب آپ دولت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نیا سیاسی نظام قائم کرنا ضروری نہیں ہوتا لیکن جب آپ دولت تقسیم کرتے ہیں، تو آپ کو ہمیشہ نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ سیاسی اصلاحات پر یا سیاسی انقلابات پر نظر ڈالیں، تو یہ تمام دولت کی تقسیم کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
چینی حکومت کی نظر میں سیاسی اصلاحات اور سماجی عدم استحکام کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ اس لیئے اس نے حکومت کی زیادہ جوابدہی کے مطالبات کو دبانے کی زبردست کوششیں کی ہیں۔ چین کے شہروں میں سیکورٹی کے انتظامات بہت سخت ہیں اور لوگوں کے جمع ہونے اور پورے مشرقِ وسطیٰ میں احتجاجی تحریکوں کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ اتوار کے روز بیجنگ میں ایک احتجاجی مظاہرے کو کور کرنے کے لیئے جمع ہونے والے صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا اور پریشان کیا۔ درجنوں لوگوں کو مظاہرہ شروع ہونے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ایک سرگرم خاتون کارکن نے بتایا کہ وہ اس مظاہرے میں ضرور شریک ہوتیں لیکن ایک روز پہلے ہی پولیس انہیں بیجنگ کے ایک ہوٹل میں لے گئی ۔وہ فون تو کر سکتی ہیں لیکن انہیں ہوٹل چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔ پولیس نے ان سے کہا کہ نیشنل پیپلز کانگریس کے ختم ہونے کےبعد یعنی 20مارچ کو وہ جہاں چاہیں جا سکتی ہیں۔
باؤ ٹونگ اعلیٰ ترین سابق عہدے دار ہیں جنہیں 1989 میں جمہوریت کے حق میں Tiananmen Square میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مخالفت کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا ۔ ان کے خیال میں پولیس کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے خلاف مظاہروں سے کتنا زیادہ گھبراتی ہے۔ باؤ کہتے ہیں کہ حکومت کو اتنا زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور اپنی توانائی یہ سوچنے پر خرچ کرنی چاہیئے کہ ملک کے مسائل کس طرح حل ہو سکتے ہیں۔