چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ صدر شی جنپنگ اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں قزاقستان کے دارالحکومت، آستانہ میں منعقد ہونے والے ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے سربرہ اجلاس کے موقع پر ’’کئی بار دوستانہ ماحول میں ملاقات کی‘‘۔
چین کی طرف سے یہ بیان ان اطلاعات کے چند دِنوں بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں دو چینی شہریوں کے اغوا کا واقعہ سامنے آنے کے بعد، صدر شی اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان آستانہ میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، لو کانگ نے معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ رپورٹیں "غیر معقول اور بے بنیاد ہیں۔"
شدت پسند تنظیم داعش نے گزشتہ ہفتہ ان دو چینی باشندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جنہیں 24 مئی کو بلوچستان کے دارالحکومت سے اغوا کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد، بین الاقوامی میڈیا کے کچھ حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ مغوی چینی شہریوں کی ہلاکت کی خبروں کی وجہ سے پاکستان اور چین کی تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین ہمیشہ سے اسٹریٹجک شراکت دار ہیں اور ان کے آپس میں دیرینہ اور گہرے تعلقات ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تحت اربوں ڈالر کے چینی سرمایہ کاری کے مختلف منصوبے شروع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں چینی شہری بھی پاکستان میں آئے جو ملک کے مختلف علاقوں میں جاری منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
اگرچہ حکومت نے ان منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی فورس تشکیل دی ہوئی ہے؛ تاہم، گزشتہ ماہ کوئٹہ میں پیش آنے والے واقع کے بعد، سکیورٹی کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے پاکستان میں چینی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، انہیں سکیورٹی فراہم کرنا بھی ایک چیلنج ہوگا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ، تسنیم نوارنی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ،"جہاں جہاں غیر ملکیوں کے آنے کا امکان ہے اور وہاں معمول کے حالات نہیں ہیں ۔۔۔اگر یہ لوگ کوئٹہ میں یا 'کے پی کے' (خیرپختونخواہ) یا قبائلی علاقے یا بلوچستان کے دیہاتی علاقے میں ہیں اور ان کی تعداد تھوڑی ہے، تو مقامی انتظامیہ ان کو تحفظ دے سکتی ہے۔ لیکن، اگر ان کی تعداد بڑھ جائے گی تو پھر اس کے لیے خصوصی فورس کی ضرورت ہوگی۔"
دریں اثناٴ، افغانستان کے ٹی وی چینل 'طلوع نیوز' نے منگل کو افغان صدر اشرف غنی کے دفتر کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
طلوع نیوز کے مطابق، اس سلسلے میں، چین کے وزیر خارجہ وانگ یی بہت جلد کابل کا دورہ کرکے افغان عہدیداروں کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کے طریقہٴ کار پر بات کریں گے۔
طلوع نیوز کے مطابق، چین کے وزیر خارجہ افغان امن عمل کے لیے امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی رابطہ گروپ کے اجلاس کے انعقاد کے امکان کے بارے میں بھی بات کریں گے۔
یہ چار ملکی گروپ جنوری 2016ء میں قائم کیا گیا تھا اور اسلام آباد اور کابل میں اس کے متعدد اجلاس ہوئے تھے۔ تاہم، اب یہ گروپ کافی عرصے سے غیر فعال ہے۔
پاکستان کی طرف سے تاحال چین کی طرف سے ایسی ممکنہ پیش رفت کے بارے میں کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
.