پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ان دو چینی باشندوں کی ہلاکت کی خبروں کے مصدقہ ہونے کے معاملے کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے جنہیں گزشتہ ماہ کوئٹہ سے اغوا کیا گیا تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد اس سلسلے میں چینی حکومت سے مسلسل رابطے میں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان ہرقسم کی دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے عزم پر قائم ہے اور دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیاں اس لعنت کے خاتمے کی عزم کو کمزور نہیں کر سکیں گی۔
قبل ازیں پاکستانی اور چینی حکام نے کہا تھا وہ شدت پسند گروپ داعش کے ان دعوؤں کی تصدیق کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے مغوی چینی شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ چین عام شہریوں کو اغوا کرنے، دہشت گردی اور تشدد کے ہر قسم کے واقعات کے خلاف ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ چین تمام ذرائع بشمول پاکستان کی ذریعے اس صورت حال کے بارے میں مزید جاننے اور اس کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 24 مئی کو ایک چینی جوڑے کو اغوا کیا گیا تھا اور شدت پسند گروپ داعش نے جمعرات کو اپنی ویب سائٹ 'اعماق' پر جاری بیان میں ان چینی شہریوں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم تاحال سرکاری طور پر اور آزاد ذرائع سے اس دعویٰ کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
سلامتی کے امور کے ماہر اور پاکستانی فوج کے سابق بریگیڈئیر محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چینی شہریوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ نہایت تشویش کی بات ہے۔
" میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کا واقعہ ہونا قدرتی طور پر پاکستان کی حکومت اور چین کی حکومت کے لیے تشویش کی بات ہے اگرچہ داعش منظم انداز میں (پاکستان میں) موجود نہیں ہے لیکن (داعش کے ) ایک دو لوگوں کا بھی ایسا کام کرنا تشویش کی بات ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اگرچہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ڈھانچے کو نقصان پہنچانا ممکن نہیں اس لیے بعض عناصر آسان ہداف کو نشانہ بنا کر خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
" وہ (عناصر) جو پاکستان کے اہم مفادات کو ںقصان پہنچانے کے لیے ایسے کام کرتے ہیں یعنی ایک دو آدمیوں کا اغوا کر نا مشکل کامنہیں ہے ۔۔۔ یہ قوتیں یہ چاہتی ہیں ایسے واقعات سے چین کا جوپاکستان پر اعتماد ہے اسے کمزور کیا جائے۔"
محمود شاہ نے کہا کہ جیسے جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں مزید پیش رفت ہو گی تو پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا تو ان کے بقول ایسی صورت مں ان کو تحفظ فراہم کرنا بھی ایک چیلنج ہوگا۔
پاکستان میں اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے منصوبوں کے شروع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں چینی شہری بھی پاکستان میں آئے جو ملک کے مختلف علاقوں میں جاری منصوبوں پرکام کر رہے ہیں۔
اگرچہ حکومت نے چین اقتصادی رہداری منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی فورس تشکیل دی ہوئی ہے تاہم قبل ازیں بھی سلامتی کے امور کے بعض مبصرین ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ بعض شرپسند عناصر پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں اور دیگر غیر ملکی افراد کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔