ایک ایسے وقت میں جب کہ امریکہ اور یورپی اقوام اپنے معاشی بحرانوں کے اثرات سے باہر نکلنے کی کوشش کررہی ہیں ، چین اس شعبے میں دنیا بھر میں نمایا ں رہا ہے۔لیکن حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چین کی تیزتر معیشت کی رفتار اب سست پڑنا شروع ہوگئی ہے۔
کچھ دن پہلے چین کے وزیر اعظم وین جیاباؤ نے کہاتھا کہ ملک کی اعلیٰ قیادت قومی معاشی رفتار پر سست روی کے اثرات سے متفکر ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیاتھا کہ وہ ایسی پالیساں نافذ کریں جن سے ملکی معیثت کو نیچے کی سمت دھکیلنے والے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکے۔
یہ بیان میں اس سال کی دوسری سہ ماہی کے معاشی اعدادوشمار کی سمت اشارہ ہے جس کا اعلان جمعے کو شماریات کے قومی بیورو کے ترجمان شنگ لی یون نے کیا۔
ان کا کہناتھا کہ اس سال کی پہلی ششماہی میں چین کی معیثت میں 7 اعشاریہ 8 فی صد کی رفتار سے اضافہ ہوا ۔ جب کہ اس سال کی آخری ششماہی میں معاشی افزائش کی رفتار 8 اعشاریہ 1 فی صد کے مقابلے میں 7 اعشاریہ 6 فی صد رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ تین سال میں پہلی بار چین کی مجموعی قومی آمدنی 8 فی صد سالانہ کی شرح سے کم رہی ہے۔لیکن ان کا کہناتھا کہ یہ شرح بھی بری نہیں ہے۔
چین کی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے تجارتی امور کے ایک ماہر سونگ ہونگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے جزوی طورپر چین کے گرتے ہوئے تجارتی اعدادوشمار کا ذکر کیا ہے جس کی ایک وجہ یورپی قرضوں کابحران اور گذشتہ سال جاپان کا زلزلہ ہے۔ لیکن ان کا کہناتھا کہ دوسری جانب اندرون ملک اشیاء کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے جس سے پوری معیثت کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔
ان کا کہناہے کہ چین میں تیل اور کاروں کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ رفتار حکومت کی جانب سے درآمدات بڑھانے کی کوششوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
تازہ ترین اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے اس وقت چین کی معاشی افزائش کی رفتار اپنی کم ترین سطح پر ہے لیکن اس کے باوجود وہ 7 اعشاریہ 5 فی صد کے سرکاری ہدف سے زیادہ ہے۔
کچھ دن پہلے چین کے وزیر اعظم وین جیاباؤ نے کہاتھا کہ ملک کی اعلیٰ قیادت قومی معاشی رفتار پر سست روی کے اثرات سے متفکر ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیاتھا کہ وہ ایسی پالیساں نافذ کریں جن سے ملکی معیثت کو نیچے کی سمت دھکیلنے والے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکے۔
یہ بیان میں اس سال کی دوسری سہ ماہی کے معاشی اعدادوشمار کی سمت اشارہ ہے جس کا اعلان جمعے کو شماریات کے قومی بیورو کے ترجمان شنگ لی یون نے کیا۔
ان کا کہناتھا کہ اس سال کی پہلی ششماہی میں چین کی معیثت میں 7 اعشاریہ 8 فی صد کی رفتار سے اضافہ ہوا ۔ جب کہ اس سال کی آخری ششماہی میں معاشی افزائش کی رفتار 8 اعشاریہ 1 فی صد کے مقابلے میں 7 اعشاریہ 6 فی صد رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ تین سال میں پہلی بار چین کی مجموعی قومی آمدنی 8 فی صد سالانہ کی شرح سے کم رہی ہے۔لیکن ان کا کہناتھا کہ یہ شرح بھی بری نہیں ہے۔
چین کی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے تجارتی امور کے ایک ماہر سونگ ہونگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے جزوی طورپر چین کے گرتے ہوئے تجارتی اعدادوشمار کا ذکر کیا ہے جس کی ایک وجہ یورپی قرضوں کابحران اور گذشتہ سال جاپان کا زلزلہ ہے۔ لیکن ان کا کہناتھا کہ دوسری جانب اندرون ملک اشیاء کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے جس سے پوری معیثت کو فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔
ان کا کہناہے کہ چین میں تیل اور کاروں کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ رفتار حکومت کی جانب سے درآمدات بڑھانے کی کوششوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
تازہ ترین اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سے اس وقت چین کی معاشی افزائش کی رفتار اپنی کم ترین سطح پر ہے لیکن اس کے باوجود وہ 7 اعشاریہ 5 فی صد کے سرکاری ہدف سے زیادہ ہے۔