انسانی حقوق کی ایک تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ چین مغربی صوبے سنکیانگ میں تین سال پہلے مہلک فسادات کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے والے یغور نسل کے باشندوں کو خاموش کرانے کی اپنی پالیسی مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہناہے کہ اگر سینکڑوں نہیں تو یقناً درجنوں یغور باشندوں کو ،
جنہیں فسادات کے بعد غائب کردیا گیاتھا، قید میں رکھا جارہاہے۔
ان فسادات میں تقریباً دوسو افراد مارے گئے تھے۔
جمعرات کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں ایمنسٹی نے کہاہے کہ چینی حکام اپنے گم شدہ رشتے داروں کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کرنے والوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔
چینی صوبے سنکیانگ کے صدر مقام ارومچی میں جولائی 2009ء میں گرفتاریوں اور مقدمات چلائے جانے کے متعدد واقعات کے بعد علاقے میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
ان گرفتاریوں، مقدمات اور علاقے میں بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں انسانی حقوق کی تنظیمیں غیر منطقی اور غیر منصفانہ قرار دیتی ہیں۔
چین نےقدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے پر اپنی گرفت سخت کرنے کے لیے فسادات کے بعد وہاں کا سیکیورٹی بجٹ دوگنا کردیا تھا اور 40 ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کردیے تھے۔
فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات میں تقریباً دو درجن افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں اور دیگر بہت سے افراد کو لمبی مدت کے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔
نسلی فسادات یغور باشندوں کی جانب سے ایک یغور کارکن کی ہلاکت کے واقعہ میں حکام کی سستی روی کے خلاف احتجاج کی شکل میں ظاہر ہوئے تھے جو پھر ہان اور یغور نسل کے لوگوں کے ایک دوسروں پر حملوں میں بدل گئے ۔ جس میں پولیس نے مبینہ طورپر ہان باشندوں کا ساتھ دیاتھا۔
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہناہے کہ اگر سینکڑوں نہیں تو یقناً درجنوں یغور باشندوں کو ،
جنہیں فسادات کے بعد غائب کردیا گیاتھا، قید میں رکھا جارہاہے۔
ان فسادات میں تقریباً دوسو افراد مارے گئے تھے۔
جمعرات کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں ایمنسٹی نے کہاہے کہ چینی حکام اپنے گم شدہ رشتے داروں کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کرنے والوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں۔
چینی صوبے سنکیانگ کے صدر مقام ارومچی میں جولائی 2009ء میں گرفتاریوں اور مقدمات چلائے جانے کے متعدد واقعات کے بعد علاقے میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
ان گرفتاریوں، مقدمات اور علاقے میں بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں انسانی حقوق کی تنظیمیں غیر منطقی اور غیر منصفانہ قرار دیتی ہیں۔
چین نےقدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے پر اپنی گرفت سخت کرنے کے لیے فسادات کے بعد وہاں کا سیکیورٹی بجٹ دوگنا کردیا تھا اور 40 ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کردیے تھے۔
فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات میں تقریباً دو درجن افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں اور دیگر بہت سے افراد کو لمبی مدت کے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔
نسلی فسادات یغور باشندوں کی جانب سے ایک یغور کارکن کی ہلاکت کے واقعہ میں حکام کی سستی روی کے خلاف احتجاج کی شکل میں ظاہر ہوئے تھے جو پھر ہان اور یغور نسل کے لوگوں کے ایک دوسروں پر حملوں میں بدل گئے ۔ جس میں پولیس نے مبینہ طورپر ہان باشندوں کا ساتھ دیاتھا۔