رسائی کے لنکس

چین کے پاس ٹیکنالوجی اور مہارت ہےکہ خلا سے زمینی جنگ کو کنٹرول کر سکے، ماہرین


بیجنگ میں منعقدہ اسپیس لیباریٹری کی نمائش۔ 24 اپریل 2021ء (فائل فوٹو)
بیجنگ میں منعقدہ اسپیس لیباریٹری کی نمائش۔ 24 اپریل 2021ء (فائل فوٹو)

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے پاس اب ٹیکنالوجی ، سازوسامان اور مہارت ہےکہ وہ خلا سے زمین پر جنگ کو کنٹرول کر سکے۔پیپلز لبریشن آرمی خلا میں فوجی آلات کے نظام اور سیٹلائٹ کے ذریعے زمین کی نگرانی کر سکتی ہے۔

سنگاپور میں بین الاقوامی مطالعے کے 'راجہ رتنم سکول' کے امریکہ میں مقیم وزٹنگ سینئر فیلو رچرڈ بیٹزینگر کا کہنا ہے کہ چین بالاخر سینسر کے استعمال سے سمندر کی تہوں میں دشمن کی آبدوز کا سراغ لگا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خلا سے فوجی استعمال اب بہت واضح ہے اس لیے چین احمق ہوگا کہ وہ اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے۔

یہ پیپلز لبریشن آرمی کے مستقبل کے منصوبوں اور اصلاحات کا حصہ ہے۔چین کا سن 2019ء کا قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) بہ عنوان ’چین کا نئے دور میں قومی دفاع‘یہ واضح کرتا ہے کہ پیپلز لبریشن ائر فورس کا خلا میں کردار بہت بڑھ جائےگا۔

اس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ فضا اور خلا میں جنگی حکمت عملی کو مربوط کرنے کی صلاحیتیں اور جارحانہ اور دفاعی آپریشنز میں باہم ربط کےلیے ،پیپلز لبریشن آرمی اور ائر فورس زمینی دفاعی نظام کو بہتر کر رہی ہے، تاکہ وہ حملے اور دفاع دونوں میں کام آسکے۔

تائیوان میں 'ایڈوانس پالیسی سٹڈیز ' تھنک ٹینک کی چینی کونسل کے سیکریٹری جنرل اینڈریو ینگ کا کہنا ہے کہ خلا میں جنگی سازو سامان اور کثیر نوعیت کے میزائیلوں کو چین فضائی حملوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ چینی فوج خلا میں اپنی فوجی ٹیکنالوجی کو متنازع مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین پر کنٹرول کے لیے استعمال کرے اوراپنے قریبی سمندروں پر مغربی بحر الکاہل سے اٹھنے والے مسائل کا سامنا کر سکے۔

واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی مطالعے اور حکمت عملی کے مرکز میں ایشیائی سمندری امور کے ڈائریکٹر گریگری پولنگ کا کہنا تھا کہ چینی حکمت عملی یہ ہے کہ قریبی سمندروں کو کنٹرول کیا جائے اور دوسرے جزائر کے ایک سلسلے کو دشمن سے مقابلے کے قابل بنایا جائے۔یہ ایجنڈا ان ایشیائی ملکوں کےلیے خطرہ ہے جو قریبی سمندروں میں اپنی خود مختاری کےلیے لڑ رہے ہیں ۔یہ کہنا تھا الیگزنڈر ووینگ کا ،جو ریاستِ ہوائی میں سیکیورٹی سٹڈیز کے ایشیا پیسیفک سنٹر میں ایک پروفیسر ہیں۔بیجنگ نے پہلے ہی جنوبی بحیرہ چین کی چوکیوں پر فوجی ہینگرز اور راڈار سسٹم نصب کر دیے ہیں۔سمندری حاکمیت کےلیے اس کا مقابلہ برونائی،ملائیشیا ،فلپائن، تائیوان اور ویتنا م سے ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ نے سرد جنگ کے سابق دشمن چین کو مزید توسیع سے متنبہ کرنے کےلیے اپنےجنگی بحری جہاز تائیوان کے نزدیک جنوبی بحیرہ چین میں بھیج دیے ہیں۔

پروفیسرووئینگ کا کہنا ہے کہ چین فوجی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔چین اور امریکہ میں بحری ہتھیاروں کی دوڑ چل رہی ہے۔چین کے پاس امریکہ کے مقابلے میں زیادہ بحری جہاز ہیں ۔کچھ اندازوں کے مطابق ،چین کے پاس خطے میں سب سے بڑی بحریہ ہے۔

امریکہ عشروں سے خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔امریکی خلائی ایجنسی، ناسا کے 1958ء میں قیام سے بھی پہلے ،امریکی بحریہ خلا کو ماحولیاتی اور سمندری گہرائی پر تحقیق کےلیے استعمال کر رہی ہے۔امریکی فضائیہ ابھی بھی 'جی پی ایس' اور میزائل شکن دفاعی سیٹلائیٹس نصب کررہی ہے۔

بٹزینگر نے کہا ہے کہ نہی چین نا ہی امریکہ کے پاس خلا میں قائم ایسی دفاعی ڈھال ہے جس سے دشمن کا میزائل نہ گزر سکے، جو 1980ء میں اس وقت کے صدر رونلڈ ریگن کی ایک خواہش تھی ۔لیکن بٹزنگر کا کہنا ہے کہ چین دنیا کی دوسری یا تیسری چوٹی کی خلائی فوجوں میں سے ایک بننے کی کوشش کر رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG