سہیل انجم
چین نے بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دورہ اروناچل پردیش پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے وقت جبکہ دونوں ملکوں کے رشتے اہم مرحلے میں ہیں، بھارت کو سرحدی تنازع کو پیچیدہ بنانے سے بچنا چاہیے۔
صدر کووند نے اتوار کے روز اروناچل پردیش کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر شمال مشرقی خطہ ملک کا تاج ہے تو اروناچل پردیش اس تاج کا نگینہ ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے پیر کے روز بیجنگ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی حکومت نے” نام نہاد اروناچل پردیش“کو تسلیم نہیں کیا ہے اور سرحدی تنازعے پر ہمارا موقف مستقل اور واضح ہے۔ ان سے صدر کووند کے دورے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔
چین اروناچل پردیش کو جنوبی تبت بتاتا ہے اور اس پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ دونوں ملک مذاکرات کی مدد سے اس تنازعے کو حل کرنے میں مصروف ہیں اور اس کا سب کے لیے قابل قبول حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
ایک دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین اروناچل پردیش کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں میں اروناچل پردیش میں ہماری قانونی اور فوجی پوزیشن کافی کمزور ہوئی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ ہمارا بھارت کے ساتھ بارڈر لداخ میں نہیں ہے اور اروناچل پردیش جنوبی تبت ہے اور وہ چین کا حصہ ہے۔ وہ اسے متنازع مانتا ہے۔ ہمارا کوئی بھی راہنما وہاں جاتا ہے تو وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان معاملات کی حساسیت کو سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ اگر وہ کچھ بولتے رہیں گے اور آپ اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے اسے نظرانداز کرتے رہیں گے تو یہ ایک اچھی سفارت کاری نہیں ہے۔ چین اب بہت طاقتور ملک ہے اور اگر کسی معاملے پر وہ حساس ہے تو ہمیں اس پر سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ جس طرح ہم اروناچل پردیش کو اپنا مانتے ہیں اسی طرح وہ اسے اپنا مانتا ہے۔
چین اس علاقے میں بھارتی اہل کاروں کے دورے کی مخالفت کرتا آیا ہے۔ اس نے 6 نومبر کو بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتارمن کے دورے کی بھی مخالفت کی تھی۔
بھارت بیجنگ کے اعتراضات کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اروناچل پردیش اس کا اٹوٹ انگ ہے اور جس طرح بھارتی راہنما اور اہل کار ملک کے دوسرے حصوں کے دورے کرتے ہیں اسی طرح وہ اروناچل پردیش کے دورے کے لیے بھی آزاد ہیں۔
بھارت بھی مذاكرات کی مدد سے چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے موقف کا اعادہ کرتا ہے۔
سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے خصوصي نمائندے مذاكرات کے 19 ادوار مکمل کر چکے ہیں۔ توقع ہے کہ بیسویں دور کے مذاكرات آئندہ ماہ نئی دہلی میں ہوں گے۔